سوتے لوگوں پرٹوٹتی آفت، بادل پھٹا

یہ صحیح ہے کہ قدرتی آفات کو روکا تو نہیں جاسکتالیکن پرانے حادثات سے سبق لے کر قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کو تو ختم کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے دیش کے کئی حصوں میں کم بارش ہونے سے ہائے توبہ مچی ہوئی ہے تو کئی ریاستوں میں بادل پھٹنے ،تیز بارش سے تباہی مچی ہوئی ہے۔ اتراکھنڈ کے پتھوڑا گڑھ ، چمولی میں جمعہ کو بادل پھٹنے سے بھاری تباہی ہوئی ہے۔ ان اضلاع میں 17 لوگوں کی جان گئی ہے 18 افراد لاپتہ ہیں۔ مقامی لوگوں کے ساتھ تیرتھ یاتری بھی جگہ جگہ پھنسے ہوئے ہیں ۔فوج اور این ڈی آر ایف کی ٹیمیں مورچہ سنبھال کر انہیں محفوظ مقامات پر پہنچا رہی ہیں۔ چٹانیں کھسکنے اور بھاری بارش کے سبب آئے سیلاب کی وجہ سے پتھوڑا گڑھ کے گاؤں بستڑی نولڑا گاؤں کا نام و نشان مٹ گیا ہے۔ یہاں دو گھنٹے میں 100 ملی میٹر بارش کے سبب50 مربع کلو میٹر کے علاقہ میں وسیع تباہی ہوئی ہے۔ چمولی میں بھی یہ ہی حال ہے ۔ کئی جگہ ہائی وے بند ہیں اور کئی جگہ ہزاروں مسافر راستوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کیدارناتھ میں پیدل یاترا تو جاری ہے لیکن ہیلی کاپٹر سروس بند ہے۔ گنگوتری ،یمنوتری یاترا جاری ہے۔10 ندیا خطرے کے نشان سے اوپر بہہ رہی ہیں۔ ان میں الکھنندا، سرجو، منداکنی قابل ذکر ہیں۔ خیال رہے کہ تین سال پہلے بادل پھٹنے کے سبب کیدار ناتھ میں پانچ ہزار یاتری مارے گئے تھے۔ بتادیں بادل پھٹنا جسے انگریزی میں ’کلاؤڈ برشٹ‘ کہتے ہیں ایک چھوٹے سے دائرے میں کافی بڑی مقدار میں اچانک بارش ہونا۔ ایسا تب ہوتا ہے جب ماحول میں دباؤ بیحد بڑھ جاتا ہے۔ عام طور پر بادل اچانک ایک دوسرے سے یا پھرکسی پہاڑی سے ٹکڑاتے ہیں تب اچانک بھاری مقدار میں پانی برستا ہے۔ یہ عمل زیادہ اونچائی پر نہیں ہوتا اس میں 100 کلو میٹر فی گھنٹہ یا اس سے زیادہ تیز رفتار سے بارش ہوتی ہے جس سے سیلاب کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ کبھی کبھی میدانی علاقوں میں بھی بادل پھٹنے کے واقعات ہوتے ہیں۔ 2005 میں 26 جولائی کو ممبئی میں گرم ہوا سے ٹکرانے سے بادل پھٹنے کاواقعہ ہوا تھا لیکن عام طور پر میدانی علاقے میں ایسے واقعات کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اب یہ چلن عام ہوگیا ہے کہ اس موسم میں بارش شروع ہوتی ہے اتراکھنڈ میں تریجڈیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور ایسی ٹریجڈیوں میں اتراکھنڈ جیسے حساس ترین ریاستوں میں حادثوں سے سبق نہ لینے کی سرکاری اور افسر شاہی کی ذہنیت بار بار پتہ چلتی ہے۔ یہ اتفاق نہیں کہ پچھلے ایک ڈیڑھ دہائی میں جب سے اتراکھنڈ میں اندھا دھند تعمیراتی کام اور قاعدے ضوابط کو طاق پررکھنے کی کارروائی بڑھی ہے تبھی سے ریاست میں ایسی ٹریجڈیو ں کی بربریت بھی بڑھی ہے۔ ہم ماحولیات کو مسلسل نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس کی بہت بھاری قیمت جان مال کی شکل میں اٹھا رہے ہیں۔پتہ نہیں اس پر کب روک لگے گی؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!