کیجریوال کے پرنسپل سکریٹری کی گرفتاری کا سوال

دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کے پرنسپل سکریٹری راجندر کمار سمیت 5 لوگوں کو سی بی آئی نے پیر تک اپنے ریمانڈ میں لے لیا ہے۔ ان پر 50 کروڑ سے زیادہ کے سرکاری ٹھیکوں میں رشوت لینے اور کرپشن کے الزامات ہیں۔ منگل کو انہیں سی بی آئی کی اسپیشل عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے سبھی کو پانچ دنوں کے لئے سی بی آئی حراست میں بھیج دیا۔ ایجنسی نے عدالت نے میں کہا کہ آئی ایس افسر گواہوں کو دھمکی دے رہے ہیں۔ اسپیشل سی بی آئی جج اروند کمار کی عدالت میں سی بی آئی نے دعوی کیا کہ راجندر کمار ایک بااثر شخص ہیں اور انہیں گرفتار کئے بغیر منصفانہ جانچ ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ گواہوں کو دھمکی دے رہے ہیں۔ اس پر عدالت نے سوال کیا کہ کیا گواہوں کو دھمکی دینے کا واقعہ سامنے آیا ہے؟ اس کے جواب میں ایجنسی کے افسر نے کہا کہ ہاں ہم نے ایسے گواہوں کے بیان درج کئے ہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے راجندر کمار 50 کروڑ روپے کے اس مبینہ گھوٹالہ کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر سامنے آئے ہیں جو سال2006 ء میں شروع ہوا۔ انہوں نے الگ الگ محکموں میں رہتے ہوئے اپنے لوگوں کے نام بنائی گئی کئی فرضی کمپنیوں کو فائدہ پہنچایا۔ ایڈورس سسٹم نام کی کمپنی 2006ء میں بنی۔ دنیش کمار گپتا اور سندیپ کمار اس کے ڈائریکٹر تھے۔ یہ کمپنی سافٹ ویئر اور سلوشن فراہم کراتی تھی۔ کمپنی کو ٹھیکے دینے میں امتیاز برتا گیا۔ دہلی ڈائیلاگ کمیشن کے سابق سکریٹری آشیش جوشی نے کہا کہ یہ تو ہونا ہی تھا۔ آخر سی بی آئی نے ایکشن لے ہی لیا ہے۔ میری ایمانداری کا خوب مذاق اڑایا گیا۔ ابھی کئی ایسے لوگ گرفت میں آئیں گے۔ یہ دھوری مین ہے جو ایک دوسرے سے جڑی ہے۔ ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن میں ٹنڈر دلانے سے لیکر دہلی ڈائیلاگ کمیشن اور ڈوسیو کے اندر گڑ بڑ گھوٹالہ میں سرکار کے کئی نیتا شامل ہیں۔ کیسے اس سرکاری خزانے کا بیجا استعمال کیا گیا؟ جانچ میں سب سامنے آئے گا۔ بتا دیں ڈائیلاگ کمیشن کے سابق ممبر سکریٹری آشیش جوشی نے پچھلے برس 15 جون کو راجندر کمار پر کرپشن کا الزام لگاتے ہوئے اس کی شکایت اینٹی کرپشن برانچ (اے سی بی ) سے کی تھی۔ 15 دسمبر 2015ء کو سی بی آئی نے وزیر اعلی کے دفتر پر چھاپہ ماری کی اور راجندر کمار کے لیپ ٹاپ سمیت دیگر سامان ضبط کئے۔ 4 مارچ 2016 ء کو چھاپہ ماری کے معاملے میں دہلی سرکار کی اپیل پر سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو نوٹس جاری کرکے جواب مانگا تھا۔ سپریم کورٹ میں سرکار نے دہلی ہائی کورٹ کے اس حکم کو چیلنج دیا جس میں چھاپہ میں ضبط فائلوں کو سی بی آئی کے پاس رہنے کے احکامات دئے گئے تھے۔ سرکار نے فائل واپس کرنے کی مانگ کی تھی۔ 2 مئی 2006ء کو پٹیالہ ہاؤس کورٹ کی اسپیشل عدالت (سی بی آئی ) میں چھاپہ ماری کے دوران ضبط کئے گئے لیپ ٹاپ اور آئی پیڈ کو واپس لوٹانے کی عرضی خارج کردی تھی۔ آخر یہ راجندر کمار کون ہیں؟ ان پر اتنا ہنگامہ کیوں؟ راجندر کمار کی پیدائش 16 دسمبر 1966ء کو بہار میں ہوئی تھی۔ 21 اگست 1989ء کو انڈین ایڈ منسٹریٹو سروس میں آئے اور عام آدمی پارٹی کے 49 دن کی سرکار میں وزیر اعلی کیجریوال کے سکریٹری بنائے گئے پھر دوسری بار اقتدار میں آنے پر بھی کیجریوال نے انہیں بطور سکریٹری مقرر کیا۔ اس دوران آئی ایس افسران کے ساتھ آپ سرکار کے تنازعہ ہوئے تو سروس محکمہ داخلہ کی مزید ذمہ داری بھی انہیں سونپی گئی۔ سبھی انتظامی اصلاحات محکمہ بھی انہی کے پاس رہا۔ اس دوران 2015ء میں راجندر کمار کو ترقی دے کر پرنسپل سکریٹری بنا دیا گیا وہ اروند کیجریوال کے سب سے قریبی مشیر کار بن گئے۔ راجندر کمار کی گرفتاری سے مرکز اور ریاست کے درمیان پہلے ہی سیاسی لڑائی اور تیز ہوگئی ہے۔وزیر اعلی اروند کیجریوال کی آنکھ اور کان مانے جانے والے راجندر کمار کی گرفتاری کے فوراً بعد نائب وزیر اعلی منیش سسودیا نے صاف کہا کہ بھاجپا سرکار پنجاب اور گوا میں عام آدمی پارٹی کے بڑھتے مینڈیٹ سے گھبرا گئی ہے ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مرکزی سرکار کے اشارے پر ہی اب وہ سبھی کوششیں کی جارہی ہیں جس سے دہلی سرکار کمزور ہو۔ اس درمیان بڑا سوال یہاں کھڑا ہوگیا ہے کہ مرکز و دہلی سرکار کی لڑائی میں پس تو دہلی کی عام جنتا رہی ہے جو تماشائی بننے پر مجبور ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!