جب جج ہی ہڑتال پر چلے جائیں

ہمارے دیش میں آئے دن کچھ عجب ہوتا رہتا ہے۔ دیش میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ جج ہی ہڑتال پر چلے گئے۔ دو سال پہلے بنے ریاست تلنگانہ کے 200 جج صرف اس لئے 15 دن کی چھٹی پر چلے گئے کیونکہ عدم رواداری کے الزام میں حیدر آباد ہائی کورٹ نے 11 ججوں کو معطل کردیا۔ دراصل تازہ تنازعہ آندھرا پردیش میں پیدا ہوئے 130 ججوں کو تلنگانہ میں مقرر کیا ہے۔ ہائی کورٹ نے پچھلے دنوں دو ججوں کو معطل کیا تھا۔ اب تک 11 ججوں کو معطل کیا جاچکا ہے۔ تلنگانہ جج ایسوسی ایشن کے بینر تلے گذشتہ دنوں 100 سے زیادہ جج صاحبان نے جلوس نکالا اور گورنر کو آندھرا کے ججوں کی تلنگانہ میں تقرری کے خلاف میمورنڈم بھی سونپا۔مظاہرین ریاست بھر میں احتجاج کررہے ہیں،بنگال میں تو مظاہرین نے کورٹ ہال اور فرنیچرکو بھی نقصان پہنچایا وہیں ہائی کورٹ نے کہا کہ وہ ججوں کے مظاہرے میں شامل ہونے اور ضابطے کی خلاف ورزی کے معاملے قطعی برداشت نہیں کرے گا۔ نچلی عدالت کے جج آندھراپردیش اور تلنگانہ کے درمیان ججوں کے بٹوارے کی کارروائی سے ناخوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آندھرا پردیش سے کئی ججوں کو تلنگانہ بھیجنے سے ان کے پرموشن پر اثر پڑے گا۔ دونوں ریاستوں میں فی الحال ایک ہی ہائی کورٹ ہے اوردونوں ریاستوں کے بیچ پانی اور حیدر آباد میں زمین وغیرہ کو لیکر جھگڑا ہوتا رہا ہے۔بتادیں کہ تلنگانہ کو2 جون2014ء کو آندھرا پردیش سے الگ کرکے ریاست بنائی گئی تھی۔ تلنگانہ میں 11 ضلع ہیں۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ 8 سال تک یعنی2024 ء تک حیدرآباد دونوں ریاستوں کی راجدھانی رہے گی۔ 
تلنگانہ کے جوڈیشیل افسر اور وکیل آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے بیچ جو ججوں کے عارضی الاٹمنٹ کے خلاف6 جون سے تحریک چلا ہرے ہیں۔ جوڈیشیل افسروں کی تحریک کے درمیان تلنگانہ میں ہائی کورٹ قائم نہ ہوپانے کے لئے پی آر ایس نے مرکزی سرکار کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ پی آر ایس ایم پی کے کویتا نے بتایا کہ اس اشو پر ان کے والد اور تلنگانہ کے وزیر اعلی کے چندرشیکھرراؤ دہلی میں واقعہ کو لیکر احتجاج جتائیں گے۔ ہڑتالی ججوں کے دو اہم الزام ہیں پہلا حیدر آباد ہائی کورٹ نے حال ہی میں تلنگانہ کی عدالتوں میں 130 ججوں کی بھرتی کی ہے۔ ان کی پیدائش آندھرا پردیش میں ہوئی ہے۔ بھرتی کے وقت تلنگانہ اور آندھرا میں پیدا لوگوں کے لئے ضروری تناسب (40 ،60 ) کی تعمیل نہیں کی گئی اس لئے یہ بھرتیاں غیر قانونی ہیں۔ دوسرا الزام یہ ہے کہ ہائی کورٹ میں کل21 ججوں میں سے صرف3 تلنگانہ کے ہیں باقی آندھرا کے ہیں۔ اس تحریک کے چلتے ریاست میں عدلیہ نظام ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ ایک عجب صورتحال ہے۔ ججوں کی ناراضگی پر بلا تاخیرغور ہونا چاہئے اور معاملے کو سلجھانے کے لئے سنجیدہ کوشش بھی ہونی چاہئے۔ سمجھداری اسی میں ہے کہ مرکز اور سپریم کورٹ معاملے میں فوراً مداخلت کریں اور تنازعے کا مناسب اور قابل قبول حل نکالیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟