رمضان کے مہینے میں سب سے مقدس دیش میں دھماکے

مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی مقام سعودی عرب کے تین شہروں میں فدائی حملوں نے چونکا دیا ہے۔ بغداد اور ڈھاکہ کے خوفناک آتنکی حملوں کے فوراً بعد ہوئے ان حملوں سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی جیسا دیش بھی اب محفوظ نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے ساری دنیا میں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والا سعودی عرب اب خود اپنے ذریعے کی گئی پیش بندی میں خود ہی پھنستا جارہا ہے۔ مقدس ماہ رمضان میں ہوئے ان دھماکوں میں کم سے کم 9 لوگوں کے مرنے کی خبر ہے اور بہت سے زخمی ہوئے ہیں۔ حملہ آوروں نے اسلام کی سرزمین کے دوسرے سب سے مقدس شہر مدینہ میں واقع پیغمبر حضرت ؐ کی مسجد نبوی کے سامنے سکیورٹی ہیڈ کوارٹر امریکی سفارتکاروں اور شیعوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ حملے ایسے وقت ہوئے جب کچھ دن پہلے ہی دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے ایک کے بعد ایک ترکی، ڈھاکہ اور بغداد میں بڑی تعداد میں لوگوں کا قتل عام کیا۔ مانا جارہا ہے عید الفطر کے تہوار سے عین پہلے حملے کئے گئے۔ مسجد کے پاس ہوئے فدائی حملہ میں حملہ آور کے علاوہ چار سکیورٹی جوان اور دو شہریوں کی موت ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔ حالانکہ سعودی حکومت کے سرکاری ٹیلی ویژن العربیہ نے مدینہ دھماکہ میں تین فدائی حملہ آوروں کے علاوہ دو سکیورٹی افسران کے مارے جانے کی خبر دی ہے۔ ادھر مشرقی سعودی عرب کے شہر خطیف میں ایک شیعہ مسجد العمران کے باہر ایک فدائی حملہ آور نے خودکو اڑالیا۔ حالانکہ اس واردات میں کوئی مرا یا زخمی نہیں ہوا۔ اس سے پہلے جدہ شہر میں پیر کو صبح سویرے امریکی مشن کے پاس بھی خودکش حملہ ہوا۔ سعودیہ کے مقدس شہر مدینہ میں مسجد حرم کے پاس بنے تھانے کے گیٹ پر ایک خودکش حملہ آور نے خود کو بم سے اڑالیا۔ جس وقت یہ واردا ت ہوئی اس وقت مراد آباد کے تین ایکسپورٹر خاندان بھی مدینے میں موجود تھے، جو تھوڑی دوری پر ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اچانک تیزدھماکہ ہوا اور ایسا لگا جیسے پوری زمین ہل گئی۔ دھماکہ مغرب کی نماز کے وقت ہوا اس لئے زیادہ تر لوگ یا تو مسجد میں تھے یا پھر روزہ کھولنے کے لئے جا چکے تھے۔ شروع میں لوگوں کو سمجھ میں نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے؟ لیکن دھماکہ کے تھوڑی دیر بعد پورے علاقے میں دھنواں پھیل گیا۔ ایک ترجمان نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ امریکی حکام کو جدہ میں ہوئے دھماکے کی جانکاری ہے اور وہ زیادہ جانکاری اکھٹی کرنے کے لئے سعودیہ کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟