تین طلاق کا اشو پھرگرمایا
سپریم کورٹ نے حال ہی میں کہا کہ مسلم فرقے میں تین بار طلاق کہہ کر ازدواجی رشتہ توڑناایک بہت اہم موضوع ہے جو لوگوں کے ایک بڑے طبقے کو متاثر کرتا ہے۔ اسے آئینی ڈھانچے کی کسوٹی پر کسے جانے کی ضرورت ہے۔ عدالت عظمی کے ججوں نے کہا کہ ہم سیدھے سیدھے ہی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہے ہیں کیونکہ دونوں طرف بہت مضبوط خیال ہے۔ یہ اس بات پر غور کرے گی کہ اشو کا نپٹارا کرتے وقت پچھلے فیصلوں میں کیا غلطی ہوئی ہے اور اس بارے میں فیصلہ کرے گی کہ کیا اسے اور بڑی یا پانچ رکنی آئینی بنچ کے سامنے بھیجا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس جسٹس ٹی ایس ٹھاکر اور جسٹس اے۔ ایم خان ولکر کی ممبر شپ والی ایک بنچ نے کہا کہ ہم سیدھے ہی کسی نتیجے پرنہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا آئینی بنچ کے ذریعے قانون پر کوئی غور کئے جانے کی ضرورت ہے؟ تین طلاق کے اشو کے درمیان قانون وزارت کی طرف سے آئینی کمیشن کو لکھے گئے اس خط کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ وہ یونیفارم سول کوڈ کے مسئلے پر اسٹڈی کرے اور اپنی رپورٹ دے۔ آئینی کمیشن دی گئی ہدایت یہ اشارہ دیتی ہے کہ مرکزی سرکار یکساں سول کوڈ کی سمت میں قدم اٹھانا چاہتی ہے لیکن یہ بھی صاف ہے کہ یہ آسان کام نہیں۔ یکساں سول کوڈ کے مقصد کو تو تبھی حاصل کیا جاسکتا ہے جب سبھی سیاسی پارٹیاں، مذہبی پیشوا اس پر سنجیدگی سے غور کریں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس پر غور تو ہوتا ہے لیکن ووٹ بینک کے تنگ نظریئے سے ، اور یہی وجہ ہے کہ ایسے الفاظ سنائی دینے لگے ہیں کہ مودی سرکار دیش پر یونیفارم سول کوڈ تھونپنے کی تیاری میں ہے۔ زیادہ تر سیاسی پارٹیاں یونیفارم سول کوڈ کی ضرورت تو جتاتی ہیں اور اس کے تئیں اصولی طور پر رضامندی بھی ظاہر کرتی ہیں لیکن یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتیں کہ اس کے لئے وقت نہیں آیا ہے۔ بتا دیں مسلمانوں کی تین طلاق کیساتھ ہی مذہبی طلاق کا اشو بھی سوالوں کے گہرے میں ہے۔ سپریم کورٹ اس کے جواز پر بھی غور کررہا ہے۔ عدالت میں ایک مفاد عامہ کی عرضی التوا میں ہے جس میں مذہبی سے ملی طلاق کو قانونی حیثیت دئے جانے کی مانگ کی گئی ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ مذہب سے ملی طلاق پر سول کورٹ کی مہر لگانے ضروری نہ ہو۔ بنگلور کے رہنے والے سینئر وکیل کلیرینس پائس کی اس مفاد عامہ کی عرضی پر سپریم کورٹ نے پچھلے برس اگست میں غور کرنے کے لئے منظور کرلیا تھا۔ معاملہ یہ ہے کہ عیسائیوں کے مذہبی شریعت کے مطابق کیتھولک چرچ میں مذہبی عدالت نے پادری کے ذریعے طلاق و دیگر ڈگریاں دی جاتی ہیں۔ سپریم کورٹ میں عرضی گزار کی طرف سے پیروی کررہے وکیل اے ۔ ایس مسین کا کہنا ہے کہ چرچ کے ذریعے دئے جانے والے طلاق کی ڈگری کے بعد کچھ لوگوں نے جب دوسری شادی کرلی تو ان پر کثیر شادی کا مقدمہ درج ہوگیا۔ ایسے میں سپریم کورٹ یہ اعلان کرے کہ پرسنل لاء میں چرچ کے ذریعے دی جارہی طلاق کی ڈگری قابل تسلیم ہوگی اور اس پر سول عدالت سے طلاق کی مہر ضروری نہیں ہے۔ حالانکہ حکومت نے عرضی گزار کی عرضی کی مخالفت کی ہے۔ سرکار کی طرف سے داخل جواب میں کہا گیا ہے کہ مانگ قبول نہیں کی جاسکتی کیونکہ طلاق قانون لاگو ہے اور اسے کورٹ جائز بھی ٹھہرا رہی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں