دو بیگموں کی جنگ میں پستا بنگلہ دیش، پھیلتی دہشت گردی

بنگلہ دیش میں نماز عید کے دوران دہشت گرانہ حملے میں ایک ہندو خاتون سمیت چارلوگوں کی موت ہوگئی۔ اس سے کچھ دن پہلے ڈھاکہ کے ایک ریستوراں پر دہشت گردانہ حملے میں 17 غیر ملکیوں سمیت 22 لوگوں کے مارے جانے کے واقعہ نے بھارت سمیت پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ بیشک یہ بنگلہ دیش میں سب سے بڑا حملہ تھا لیکن پچھلے تین سال میں بنگلہ دیش میں قریب40 دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ اب تک ایشیائی مسلم ملک ہونے سے محفوظ سمجھے جاتے رہے اس دیش میں ایسے دھماکے ہونا سوال ضرور کھڑے کرتا ہے۔ 2015 ء سے ایسے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ غیر ملکیوں، ہم جنس رشتوں کی وکالت کرنے والوں، مذہبی اقلیتوں اور بلاگرز کو اکثر نشانہ بنایا جانے لگا۔ عراق اور شام میں سرگرم اسلامک اسٹیٹ اور القاعدہ نے ان میں سے کچھ حملوں کی ذمہ داری لی ہے، لیکن بنگلہ دیش سرکار نے ان دعوؤں کو مسترد کردیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ان حملوں کے پیچھے ان کے ہی دیش کی تنظیم جماعت المجاہدین کا ہاتھ ہے اور سرکار کے اس دعوے کا سیاسی مقصد دیکھا جارہا ہے۔ بنگلہ دیش کی اصلی مشکل سیاسی ڈیڈ لاک ہے۔ وہاں پر کبھی شیخ حسینہ اور کبھی خالدہ ضیاء کی حکومتیں بنتی آرہی ہیں۔ دونوں کے درمیان سیاسی تلخی جگ ظاہر ہے۔ شیخ حسینہ سرکار میں مین اسٹریم کی اپوزیشن پارٹی جماعت اسلامی پر شکنجہ کسا ہوا ہے۔ دعوی کیا جاتا ہے جماعت اسلامی کا تعلق جماعت المجاہدین سے ہے۔ 1971ء کی جنگ میں جب بنگلہ دیش کو پاکستان سے آزادی ملی تھی تب جماعت اسلامی کے لیڈروں پر پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کا الزام لگا تھا۔ یہاں یہ بتا دیں کہ شیخ حسینہ بنگلہ دیش کے روح رواں کہے جانے والے بنگ بندھو شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی ہیں۔ شیخ حسینہ نے 1971ء میں جنگی جرائم کی جانچ کیلئے وار کرائم ٹریبیونل بنا رکھا ہے اور اس نے کئی اپوزیشن آتنکیوں کو پھانسی بھی دے دی ہے۔ مئی میں ٹریبیونل نے جماعت اسلامی کے چار لیڈروں کو پھانسی دی تھی۔ مئی میں ہی ٹریبیونل نے جماعت کے چیف مطع الرحمان نظامی کو پھانسی کا حکم دیا تھا۔ سرکار اب ایسے بل پر غور کرنے جارہی ہے جس کے تحت جماعت السامی پر پابندی لگادی جائے گی۔ بنگلہ دیش میں دو طرح کے راشٹرواد ہیں پہلا ہے زبان یعنی بنگالی راشٹرواد ، جس میں ہندو ہوں یا مسلمان سبھی بنگلہ بولتے ہیں اور ان کا ایک ہی کلچر ہے بنگلہ دیش۔ اسی نظریئے سے پاکستان سے الگ ہوکر شیخ حسینہ کی پارٹی عوامی لیگ اس راشٹرواد کو بڑھاوا دیتی ہے،جبکہ جماعت اسلامی اور بی این پی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مذہب پر مبنی بنگلہ دیشی راشٹرواد کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ بنگلہ دیش اسلام کے قاعدے قانون پر چلے اور دونوں گروپ اپنے وجود کو بچانے کے لئے کہیں زبان کو تو کہیں مذہب کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے اسی تعطل کا فائدہ پاکستانی خفیہ آئی ایس آئی و اسلامک اسٹیٹ اٹھا رہی ہیں۔آئی ایس آئی ، آئی ایس اور القاعدہ بنگلہ دیش کو اپنے فروغ کیلئے مفید جگہوں میں سے ایک مانتی ہیں۔ عراق اور شام میں کمزور پڑنے کے بعد آئی ایس کو اب نئے گڑھ کی تلاش ہے۔ ایسے میں مسلم اکثریتی بنگلہ دیش میں آئی ایس ایک پکڑ بنانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش میں زیادہ تر نوجوان آبادی 25 سال کے نیچے ہے اور اس سے آئی ایس جیسی تنظیموں میں لڑکوں کی بھرتیاں کرنا آسان ہے۔ بنگلہ دیش کی سرکار لگاتار آئی ایس کے دعوؤں کو خارج کرتی آئی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلاسٹ پارٹی یا دیش کی سب سے بڑی پارٹی جماعت اسلامی یہ حملے کررہی ہے۔ ایسے میں سرکار کا رویہ دہشت گردوں کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ، آئی ایس کی کوشش بنگلہ دیش میں کٹر اسلامی طاقتوں کا بچاؤ کرنے کی ہوسکتی ہے۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ آئی ایس بنگلہ دیش کو مرکز بنا کر بھارت اور پاکستان میں اپنا جال پھیلانے کی اسکیم پر کام کررہی ہے۔ بنگلہ دیش میں 14.86 کروڑ مسلمان ہیں۔ دنیا بھر میں مسلم آبادی کے معاملے میں انڈونیشیا، پاکستان اور بھارت کے بعد چوتھے مقام پر بنگلہ دیش ہے۔ 2001ء کے اعدادو شمار کے مطابق یہ کل آبادی کا 90.4 فیصدی حصہ ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!