پہلے اترکھنڈ اب اروناچل میں مرکز کو زبردست جھٹکا

اروناچل پردیش پر سپریم کورٹ کا فیصلہ مودی حکومت اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے ایک بڑا جھٹکا ہے۔ اس سے پہلے اتراکھنڈ میں بھی صدر راج لگانے کے مرکز کے فیصلے کو بھی خارج کردیاگیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بدھ کو اروناچل کی سات ماہ پرانی کانگریس حکومت بحال کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اروناچل پردیش کے گورنر کے فیصلے کو غلط اور غیر آئینی قرار دیا۔ ساتھ ہی عدالت نے 15 دسمبر2015ء سے پہلے کی پوزیشن بحال کرنے کے بھی احکامات دئے۔ غور طلب ہے کہ اروناچل کی نبام تکی کی قیادت والی کانگریس حکومت دسمبر میں برخاست کردی گئی تھی۔ یہ صحیح ہے کہ کانگریس ممبر اسمبلی پارٹی میں بغاوت کے چلتے نبام تکی کی سرکار کی اکثریت مشتبہ ہوگئی تھی لیکن گورنر نے جو کیا اسے قطعی منصفانہ اور ان کے عہدے کی آئینی ذمہ داری کے مطابق نہیں کہا جاسکتا۔ اروناچل میں کانگریس کی قیادت والی نبام تکی حکومت اس لئے بحران میں پڑ گئی تھی کیونکہ کانگریسی ممبران نے بھی اس کے خلاف بغاوت کردی تھی۔ کیونکہ اسمبلی اسپیکر وزیر اعلی کے بھائی تھے اس لئے انہوں نے خاص طور پر حکمراں پارٹی کو راحت دینے والے فیصلے دئے۔ اس میں دورائے نہیں ہو سکتی کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اسی نقطہ نظر سے تاریخی کہا جائے گا کیونکہ پہلی بار اقتدار سے باہر ہوچکی سرکار کو پھر سے بحال کردیا گیا ہے۔لیکن بڑا سوال یہ بھی ہے کہ اگر نبام تکی اسمبلی میں اپنی اکثریت نہیں ثابت کرسکے تو؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کی حقیقی اہمیت کی نشاندہی کرے گا۔ایک طرح سے اروناچل کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے جہاں ایک بار پھر کانگریس پارٹی و تمام اپوزیشن کو سنجیونی ملی ہے وہیں پارلیمنٹ کے مانسون سیشن میں یہ ہنگامے کا بڑا اشو بننے والا ہے چونکہ فیصلہ دیش کی عدالت عظمیٰ کا ہے اس لئے سرکار کے پاس اپنا بچاؤ کرنے کے لئے متبادل محدود ہو گئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے گھڑی کی سوئی کو پوری طرح دسمبر 2015ء کی طرف موڑدیا ہے جہاں سے سیاسی بحران شروع ہوا تھا۔ نبام تکی کی حکومت بحال ہوگی اور اس درمیان کالیکھوپل سرکار میں جو بھی فیصلہ کیا وہ سب غیر آئینی مانے جائیں گے۔ عدالت کے ریمارکس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اس کی نظر میں گورنر کے ذریعے اسمبلی کا اجلاس بلانا اور باغیوں کے ایجنڈے کے مطابق کام کی فہرست تیار کرنا غیر آئینی تھا۔ اس فیصلے سے گورنر راج کھودا پوری طرح سے کٹہرے میں کھڑے ہیں ۔ کیونکہ عدالت نے کہہ دیا ہے کہ گورنر مرکز کے ایجنٹ کی طرح کام نہ کریں اس لئے مرکز بھی کٹہرے میں آگیا ہے۔ اتراکھنڈ اور اروناچل کے فیصلوں کا یہی پیغام ہے کہ نریندر مودی سرکار کسی بھی ریاست میں صدر راج لگانے سے پہلے سنجیدگی سے پہلوؤں پر ہوم ورک کرے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!