بھاجپا پردھان امت شاہ کیلئے کانٹوں بھری راہ

وزیر اعظم نریندر مودی کے بھروسے مند امت شاہ کو ایتوار کے روز دوبارہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا صدر چن لیا گیا۔ جیسے امیدتھی ان کا انتخاب بلا مقابلہ ہوا۔ حالانکہ امت شاہ کے مقابلے صدر کے عہدے کی دعویداری کیلئے کسی اور لیڈر نے اپنا پرچا داخل نہیں کیا لیکن شاہ کے طریق�ۂ کار سے پہلے ہی ناخوش بھاجپا کے بزرگ لیڈروں نے ان کے چناؤ پروگرام کا بائیکاٹ کر اپنا احتجاج ایک طرح سے جتادیا ہے۔ شاہ کو دوبارہ بی جے پی کی کمان سونپنے کے پیچھے کیا ان کی قابلیت تھی یا پھر نریندر مودیسے قریبی وابستگی؟ حالانکہ مودی۔ شاہ خیمے کا ماننا ہے کہ شاہ کے سیاسی ٹیلنٹ اور ان کی تنظیمی خوبیوں کی بدولت ہی انہیں پارٹی صدر کی دوبارہ سے کمان ملی ہے۔ امت شاہ مئی 2014 میں اس وقت بھاجپا کے پردھان بنے تھے جب اس وقت کے پارٹی صدر راجناتھ سنگھ سرکار میں شامل ہوگئے تھے۔ 51 سالہ امت شاہ کی نئی میعاد 3 سال کی ہوگی۔ بھلے ہی نریندر مودی کے بھروسے کی بدولت بی جے پی کی کمان ایک بار پھر ملی ہو لیکن ان کے لئے مستقبل کی راہ نہ صرف چیلنج بھری ہے بلکہ آسان بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ شاہ اور مودی سرکار دونوں کی پرفارمینس کا اثر پارٹی کے مستقبل پر سیدھا پڑے گا۔ اس سال جن پانچ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام راجیہ میں چناؤ ہونے ہیں ان میں آسام کو چھوڑ کر باقی ریاستوں میں بھاجپا کو زیادہ بڑی امید نہیں ہے۔ ایسے میں شاہ کے لئے پہلی چنوتی آسام کی ہے جہاں سے بھاجپا نیتاؤں نے امید باندھی ہوئی ہے اور مسلسل دعوے کئے جارہے ہیں کہ اگلے سال بھی بھاجپا کی راہ آسان نہیں ہونے والی ہے کیونکہ اگلے سال 7 ریاستوں میں اسمبلی چناؤ ہونے والے ہیں۔ ان میں سب سے بڑی چنوتی اترپردیش میں ہوگی۔ شاہ کو بھاجپا کے سپریم عہدے پر لانے اور ان کی انتظامی صلاحیت پر پہلی مہر اترپردیش نے ہی پچھلے لوک سبھا چناؤ میں لگائی تھی۔اب شاہ پر اترپردیش کو لیکر زیادہ دباؤ رہے گا کیونکہ دہلی بہار کے نتیجوں نے مخالفین کو شاہ کی حکمت عملی و چناؤ انتظام پر سوال کھڑے کرنے کا موقعہ دیدیا ہے۔ ابھی تک تو بھاجپا مرکز میں سرکار بننے کی خوشی اور وزیر اعظم نریندر مودی کی شخصی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتی رہی ہے لیکن جہاں ایک طرف مودی کی مقبولیت کا گراف گر رہا ہے وہیں سرکار کی کارگزاری پر بھی سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔ مرکزی سرکار مسلسل نئی اسکیموں کا اعلان کررہی ہے۔ ترقی کے دعوؤں کی گونج ہے، وزیر اعظم غیر ملکی دوروں کے ذریعے روز روز نئی دوستی کے نئے باب کھول رہے ہیں مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ عام لوگوں میں سرکار کے کام کاج کو لیکر کوئی جوش نہیں ہے۔اچھے دنوں کی امید مدھم پڑ گئی ہے۔ اس سال پانچ ریاستوں میں اسمبلی چناؤ ہونے ہیں ان میں کیرل، تاملناڈو جیسی ریاستوں میں بھاجپا کی طاقت صرف اپنے دم خم پر مقابلے میں رہنے کی نہیں لگتی۔ شاہ کے سامنے ایک چنوتی یہ بھی ہوگی کہ ایسی ریاستوں میں ساتھیوں کی تلاش کرنا۔ قریب سال بھر بعد اترپردیش اسمبلی چناؤ ہوگا۔ شاہ کی اگنی پریکشا اسی سے اگلے لوک سبھا چناؤ کے رجحان سے طے ہوگی۔بھاجپا اور آر ایس ایس میں تال میل بنائے رکھنا بھی پارٹی اور سرکار کیلئے ضروری ہوگی۔ پارٹی کے اندر بھی ناراضگی ہے ۔ بھاجپا پر جب کبھی سنگھ حاوی ہوتا ہے تو کچھ نیتا اسے و ورکروں میں ناراضگی کا رویہ دیکھنے کو ملا ہے۔ جس نیتا کے منہ میں جو آتا ہے بیان دے ڈالتا ہے اس کا مضر اثر سرکار اور پارٹی کے لئے کچھ بھی ہو۔ اگر اس پر کنٹرول نہیں ہوا تو پارٹی اور سرکار دونوں مشکل میں پڑتی رہیں گی۔ دہلی بہار کی سب سے کراری ہار کے بعد بھی امت شاہ کو پارٹی صدر کے عہدے پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ شاہ پی ایم کے سب سے بھروسے مند ہیں اور آر ایس ایس نہیں چاہتا کہ پارٹی صدر بدلنے کے بعد سرکار اور تنظیم میں کوئی فرق دکھائی دے۔ امت شاہ کو بدھائی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟