کوڑے کا پہاڑبنتی ہماری دہلی

راجدھانی دہلی میں کیجریوال سرکاراور دہلی میونسپل کارپوریشن میں رسہ کشی کے درمیان دہلی کوڑے کا پہاڑ بنتی جارہی ہے۔ جمعرات کو قریب ڈیڑھ لاکھ صفائی ملازمین ہڑتال پر رہے۔ اس سے نہ تو اسکولوں میں پڑھائی ہو پا رہی ہے اور نہ سڑکوں پر صفائی۔ اب ایم سی ڈی ملازمین نے دہلی سرکار کے وزرا کے گھروں کے سامنے کوڑا ڈالنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اس کی ابتدا جمعرات کو دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سسودیا کے گھر کے باہر کوڑا پھینک کر کی۔ منیش سسودیا ، اروند کیجریوال ہائے ہائے کے نعرے ، بچے مر گئے ہائے ہائے کے نعرے بھی لگائے۔ مودی ۔ بی جے پی ہائے ہائے کے نعرے بھی لگے۔ صفائی کرمچاری، نرس و ٹیچر تنخواہیں نہ ملنے پر ہڑتال پر ہیں۔بڑھتی گندگی کو لیکر دہلی ہائی کورٹ میں بدھوار کو بیحد سخت رخ اختیار کرتے ہوئے تینوں میونسپل کارپوریشنوں کو پھٹکار لگا کر پوچھا کہ کیا وہ دہلی کو کوڑے کا پہاڑ بنانا چاہتے ہیں؟ ہائی کورٹ نے یہ سخت ریمارکس دہلی میں کوڑا نپٹانے کے لئے لینڈ فل سائٹوں کے انتظام پربھی کی۔ عدالت نے کہا طے پیمانوں کے مطابق لینڈفل سائٹوں کی زیادہ اونچائی 70فٹ سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے جبکہ موجودہ وقت میں جہاں کوڑا اکٹھا کیا جارہا ہے ان جگہوں کی اونچائی 150 سے170 فٹ تک پہنچ گئی ہے۔ تنخواہ نہ ملنے سے تینوں میونسپل کارپوریشنوں کے صفائی ملازمین کی ہڑتال پر بھی ہائی کورٹ نے سخت موقف اپنایا۔ اس معاملے میں مرکز اور دہلی سرکار کے علاوہ تینوں کارپوریشنوں کو نوٹس جاری کیا۔ صفائی ملازمین کی ہڑتال پر عدالت نے پوچھا کہ دہلی سرکار اس بات کا جواب دے کہ ’سوچ بھارت‘ مہم کے تحت مرکز سے ملا پیسہ کہا گیا؟ ہائی کورٹ نے کہا صفائی کے نام پر جب لوگوں سے ٹیکس وصولہ جارہا ہے تو دہلی کو صاف کیوں نہیں رکھا جارہا ہے۔عدالت نے کارپوریشن کے ملازمین کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ صفائی نہ ہونے پر کوئی بہانا نہیں چلے گا۔ دراصل دہلی کی عام آدمی حکومت و مرکز کے درمیان آپسی لڑائی کا خمیازہ دہلی کے باشندے بھگت رہے ہیں۔ صفائی ملازمین کی مانگ ہے کہ انہیں تنخواہ کی ادائیگی مہینے کی پہلی تاریخ کو 2003 ء سے ایریئر نہیں دیا گیا، اس کی فوراً ادائیگی ہو۔ اقتصادی بدحالی کو دور کرنے کے لئے تینوں کارپوریشنوں کو ایک کیا جائے۔ دہلی سرکار اور دہلی میونسپل کارپوریشن کے ٹکراؤ میں پچھلے چار مہینے سے تنخواہ کے لئے بری طرح پس رہے کارپوریشن ملازمین نے اب انتظامیہ سے آر پار کی لڑائی لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ادھر دہلی سرکار دعوی کررہی ہے کہ ایم سی ڈی کو پوری رقم دی جاچکی ہے۔ اپنا مالی حساب کتاب نہیں دے رہی ہیں۔ تینوں میونسپل کارپوریشن کا 1576 کروڑ روپے ڈی ڈی اے پر پراپرٹی ٹیکس کی شکل میں بقایا ہے اسے کیوں نہیں وصولہ جارہا ہے؟ دہلی پردیش کانگریس کمیٹی کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ کی ہدایت کے باوجود اروند کیجریوال سرکار کارپوریشنوں کو تیسرے مالیاتی کمیشن کی سفارشات کے مطابق 3 ہزار کروڑ روپے کی ادائیگی کیوں نہیں کررہی ہے؟ پردیش کانگریس کی چیف ترجمان شرمشٹھا مکرجی نے کہا کہ دہلی سرکار اپنی پبلسٹی اور ممبران اسمبلی کی تنخواہ بڑھانے پر تو خرچ کررہی ہے لیکن کارپوریشنوں کو فنڈ نہیں دے رہی ہے۔ اسی طرح سے مرکزی سرکار نے ’سوچ بھارت مہم‘‘ اور’ یوگ دوس‘ پر کروڑوں روپے خرچ کردئے لیکن کارپوریشنوں کو مالی بحران سے نکالنے پر کوئی توجہ نہیں دی۔دہل میونسپل کارپوریشن کے مالی بحران سے لیکر تنخواہ کی دقت کی بنیادی وجہ کارپوریشن کا بٹوارہ ہونا تھا۔ سرکار سے الاٹمنٹ و آمدنی تو جوں کے توں رہی لیکن کارپوریشن کے بٹوارے کے بعد ایک ایم سی ڈی کے 105 محکمے بن گئے ہیں۔ ایک محکمے میں 30 کمیٹیوں کی جگہ90 کمیٹیاں بن گئی ہیں۔ ایم سی ڈی کے تین کمشنر ، ایک درجن سے زائد ایڈیشنل کمشنر، تین میئر ، تین ڈپٹی میئر اور تین لیڈر آف دی ہاؤس اور تین اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین اور پھر تین وائس چیئرمین کے ساتھ 272 وارڈوں اور کارپوریشنوں کے کونسلر بھی بن گئے۔ تینوں کی ایم سی ڈی میں 75 محکموں کے شعبہ جاتی صدور سے لیکر افسران و ملازمین کی تنخواہ کا بڑا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔ کارپوریشن کے بٹوارے کے بعد ماہانہ 500 کروڑ روپے خرچ ہونے لگا ہے۔ یونیفائڈ ایم سی ڈی کا بجٹ 6699 کروڑ کا ہوتا تھا وہیں تینوں کو اپنا بڑھا خرچ چلانے کے لئے 2016-17 میں مجوزہ بجٹ 14347.31 کروڑ روپے رکھنا پڑا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس پورے مسئلے کو کیسے سلجھایا جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟