وزیر انل وج نے آخر غلط کیا کہا؟
ہریانہ میں وزیر ایس پی تنازعہ پر کافی کچھ کہا جارہا ہے کہ اور بہت کچھ لکھا بھی جاچکا ہے اس تنازعہ پر تبصرہ کرنے سے پہلے میں قارئین کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اصل میں معاملہ کیا تھا؟ ہریانہ کی تکالیف ازالہ میٹنگ میں ریاست میں وزیر صحت انل وج اور آئی پی ایس افسر سنگیتا کالیہ میں تلخ بحث ہوگئی۔ واقعہ کچھ ایسا تھا عوام کی شکایت سن کر ان کا فورا ممکنہ حل کرنے کے لئے تشکیل کمیٹی کے چیئرمین و کیبنٹ وزیرانل وج کو کھلے اجلاس میں کسی نے شراب کی مبینہ اسمگلنگ کی شکایت کی تھی۔ معاملہ چونکہ پولیس محکمہ سے متعلق تھا۔ اس لئے ممکنہ طور پر وزیرموصوف نے بگل میں بیٹھی سنگیتا کالیہ سے رائے دینے کو کہا اس پر افسرنے اگرچہ سر کہہ کر تبصرہ یہ کہا کہ سچ ہے ان کے لہجہ میں ہریانوی اکھڑ پن سے زیادہ ایک اور سینئر جن سیوک سے توقع نر م گوئی اور وقار اور سادگی کی کمی تھی۔وزیر موصوف نے پوچھا کہ پولیس شراب کی اسمگلنگ کیوں نہیں روک پاتی؟ پولیس اسے نہ روک کر شراب نوشی کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ اس پر اعلی پولیس افسر سنگیتا کالیہ نے جواب دیا کہ بڑھاوا تو سرکار دے رہی ہیں۔ لائسنس دے کر؟ کیا آپ چاہتے ہیں ہم ’’انہیں ‘‘ اسمگلروں کو گولی مار دے؟ وج نے کہا اسمگلر صبح میں پکڑے جاتے ہیں اور شام کو چھوٹ جاتے ہیں اور پھر شراب بیچنے لگتے ہیں اس پر کیا ہم گولی مار دیں اس کا جواب ہماری سمجھ سے وزیرانل وج نے غلط سوال نہیں کیا تھا۔
اس کا جواب نرم گوئی سے دینا فرض بنتا تھا اس سے وزیر اور افسر میں کہاسنی ہوگئی اور وزیر نے کالیہ کو میٹنگ سے چلے جانے کو کہا تاکہ پولیس غیرموجودگی میں عوام کی شکایتیں سنی جاسکے۔ اسے ماننے سے سنگیتا کالیہ نے منع کردیا تو وزیرخود میٹنگ سے اٹھ کر چلے گئے۔ بعد میں ہریانہ سرکار نے سنگیتا کالیہ کا تبادلہ کردیا۔ وزیر موصوف کے اٹھ کر جاتے ہوئے بھی یہ افسر بیٹھی رہی کسی بھی جرم کے لئے شخصی طور سے وہ جوابدہ نہیں تھی۔ بھری میٹنگ میں وہ یہ بھی تو کہہ سکتی تھی، کہ سر شکایت سنگین ہے، میں اس کی جانچ کراؤں گی۔ اس کا ایسا نرم رویہ اس بات کو وہی ختم کردیتا۔ اس کا تبادلہ ہوگیا ہے۔ جمعہ جمعہ چار دنوں کی کھٹر سرکار جرائم کے لئے ذمہ دار نہیں ٹھہرائی جاسکتی ہے اور نہ ہی موجودہ پولیس مشینری۔ وہ خاتون افسر بھی حکومت و انتظامیہ کی ایک باعزت حصہ ہے۔ آئین سازیہ انتظامیہ کے درمیان ذرا سی بھی ان پن میڈیا اور عدلیہ کو چیلنج دے گی۔ اپوزیشن ٹانگ کھینچے گی اور جنتا تنگ کرے گی ہم پورے معاملے میں انل وج کو قصور وار نہیں مانتے بلا وجہ اس معاملے کو طول دیاجارہا ہے۔
اس کا جواب نرم گوئی سے دینا فرض بنتا تھا اس سے وزیر اور افسر میں کہاسنی ہوگئی اور وزیر نے کالیہ کو میٹنگ سے چلے جانے کو کہا تاکہ پولیس غیرموجودگی میں عوام کی شکایتیں سنی جاسکے۔ اسے ماننے سے سنگیتا کالیہ نے منع کردیا تو وزیرخود میٹنگ سے اٹھ کر چلے گئے۔ بعد میں ہریانہ سرکار نے سنگیتا کالیہ کا تبادلہ کردیا۔ وزیر موصوف کے اٹھ کر جاتے ہوئے بھی یہ افسر بیٹھی رہی کسی بھی جرم کے لئے شخصی طور سے وہ جوابدہ نہیں تھی۔ بھری میٹنگ میں وہ یہ بھی تو کہہ سکتی تھی، کہ سر شکایت سنگین ہے، میں اس کی جانچ کراؤں گی۔ اس کا ایسا نرم رویہ اس بات کو وہی ختم کردیتا۔ اس کا تبادلہ ہوگیا ہے۔ جمعہ جمعہ چار دنوں کی کھٹر سرکار جرائم کے لئے ذمہ دار نہیں ٹھہرائی جاسکتی ہے اور نہ ہی موجودہ پولیس مشینری۔ وہ خاتون افسر بھی حکومت و انتظامیہ کی ایک باعزت حصہ ہے۔ آئین سازیہ انتظامیہ کے درمیان ذرا سی بھی ان پن میڈیا اور عدلیہ کو چیلنج دے گی۔ اپوزیشن ٹانگ کھینچے گی اور جنتا تنگ کرے گی ہم پورے معاملے میں انل وج کو قصور وار نہیں مانتے بلا وجہ اس معاملے کو طول دیاجارہا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں