راجینا کی شکایت :کیا یہ عدم رواداری نہیں ہے

گزشتہ کچھ دنوں سے دیش میں عدم رواداری پر تیکھے حملے ہورہے ہیں۔ حال ہی میں فلمی ستارے اور کروڑوں کے چہیتے عامرخاں نے بھی دیش میں عدم رواداری کے ماحول پر گھٹن محسوس کی اور یہاں تک کہہ دیا کہ ان کی پتی تو دیش چھوڑنے کی بات کررہی ہیں۔ اس عدم رواداری کیلئے مودی سرکار و اکثریتی طبقے کو الزام دیا جارہا ہے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ دوسرے فرقوں میں جو عدم رواداری ،زیادتیاں ہورہی ہیں اس کے بارے میں نہ تو یہ مسلمانوں کے ٹھیکیدار ایک لفظ بول رہے ہیں اور نہ ہی کوئی علماء منہ کھول رہے ہیں۔ میں بات کررہا ہوں ایک خاتون مسلم صحافی وی پی راجینا کو ہراساں کئے جانے کی۔
صحافی وی پی راجینا نے مدرسوں میں ہورہی ہراسانی کے بارے میں فیس بک پر تبصرہ کیا تھا۔ صحافیہ نے اپنی فیس بک پوسٹ میں مدرسوں میں مبینہ طور پر ہونے والے بچوں کے جنسی استحصال کے خطرناک حالات بیان کئے تھے۔صحافیہ وی پی راجینا ایک ملیالم روزنامے میں کام کرتی ہیں۔راجینا نے اپنے بچپن کی یادوں کو ساجھا کرتے ہوئے بتایا تھا کہ کس طرح سے مدرسوں میں لڑکے لڑکوں کی جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ راجینا نے مدرسوں میں ہورہے ان واقعات کے بارے میں ایتوار کو فیس بک پر تبصرہ کیاتھا جس کے بعد سے انہیں اپنے طبقے کے لوگوں کی سخت مخالف جھیلنی پڑ رہی ہے اور یہ مخالفت عریانیت اورجان کی دھمکی دینے تک پہنچ گئی ہے۔
راجینا نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے اپنے بچپن میں مدرسوں میں بچوں کے ساتھ ہونے والے جسمانی استحصال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ صحافیہ نے لکھا ہے کہ جب میں پہلی کلاس میں پہلی بار گئی تو مدرسے میں ادھیڑ عمر ٹیچر نے پہلے تو بچی کو کھڑا کیا اور بعد میں انہیں پینٹ کھول کر بیٹھنے کو کہا۔ اس کے بعد وہ سیٹ پر گیا اور بچوں سے چھیڑ چھاڑ کی۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اس نے یہ کام آخری طالبہ کو چھیڑنے کے بعد ہی بند کیا۔ ان کے اس پوسٹ کے بعد اب راجینا مسلم کٹر پنتھیوں کے نشانے پر آگئی ہیں اور انہیں بھاری مخالفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ راجینا اس سے پہلے بھی مسلم انتظامیہ کے ایک اسکول میں لڑکے لڑکیوں کے بیچ بھید بھاؤ کے خلاف آواز اٹھا چکی ہیں۔ رابطہ کرنے پرراجینا نے بتایا میرے فیس بک اکاؤنٹ کو بند کردیا گیا ہے، جو میں نے کہا تھا وہ کوئی غلط نہیں تھا بلکہ سچائی اور صرف سچائی ہی ہے۔راجینا نے بتایا کہ ان کی منشا پرسوال اٹھائے جارہے ہیں اور اسے مذہب پر حملے کے طور سے پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ہم ان مبینہ سیکولرسٹوں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اب وہ کیوں چپی سادھے ہوئے ہیں؟کیا یہ عدم رواداری نہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!