شام کو لے کر امریکہ اور روس میں اختلافات
مشرقی وسطی میں پہلے سے ہی الجھی ہوئی سیاست اور زیادہ الجھ گئی ہیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق روسی جنگی جہازوں نے شام میں اسلامی اسٹیٹ کے ٹھکانوں پر ہوائی حملے شروع کردیئے ہیں۔ یہ حملے ہومز سے کئے گئے امریکہ کو پہلے سے جانکاری دی گئی تھی۔ روس کے صدر ولادیمیر پتن نے حملے کے ساتھ ہی شام کے صدر بشرالاسد سے فون پر بات کی۔ پتن نے اپیل کی کہ وہ شام میں جاری خونی لڑائی کو ختم کرانے کے لئے سیاسی سمجھوتے کے لئے تیار ہوجائے۔ اس سے پہلے روسی پارلیمنٹ نے شام میں روسی ایئر فورس کو ہوائی حملے کے لئے اپنی منظوری دے دی تھی۔ روس کے سینئر افسر سرگئی رونوف کے مطابق شام کی بحریہ کی مدد کے بعد روس نے یہ فیصلہ لیا ہے ۔ رونوف نے صاف کیا ہے کہ شام میں مزید فوج کی تعیناتی نہیں ہوگی صرف ایئر فورس ہی تعینات کی جائے گی۔ شام اور عراق میں آئی ایس کے فوجی ٹھکانوں پر امریکی قیادت والی اتحادی فوج پچھلے ایک سال سے ہوائی حملے کررہی ہیں لیکن صدر پتن کے چیف آف اسٹاف رونوف کے مطابق امریکہ اور فرانس کے ذریعے شام پر کئے جارہے حملہ بین الاقوامی قوائد کے مطابق نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے اقوام متحدہ یا شام کی سرکار سے کوئی اجازت نہیں لی گئی ہے۔ روس اپنے قومی مفادات کو ذہن میں رکھ کر ایسا کررہا ہے۔ اس کے مطابق ہزروں روسی شہری آئی ایس میں شامل ہوچکے ہیں اور روس لوٹنے کے بعد یہ روس کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔
ادھر امریکی صدر براک اوبامہ نے کہاہے کہ شام کو لے کر روس کی حکمت عملی تباہ کاری کاذریعہ ہے کیونکہ صدر ولادیمیر پتن اسلامی اسٹیٹ کے دہشت گردوں اور شام کے کٹر حکمراں بشرالاسد حکومت کا مقابلہ کرنے والے اصلاح پسند گروپ کے درمیان فرق کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے ایک پریس کانفرنس کہا ہے کہ یہ سچ ہے کہ خطرناک دہشت گرد گروپ اسلامی اسٹیٹ آئی ایس کو ختم کرنے میں دونوں دیش اور پوری دنیا یکساں مفاد شامل ہے انہوں نے بہرحال پتن اس سلسلے میں جو بھی بات کہی اس سے یہ صاف ہے کہ وہ آئی ایس اور اسد کو ہٹانے کی خواہش رکھنے والے مخالف اصلاح پسند سنی کے بیچ فرق نہیں کرتے۔ دراصل ہمیں لگتا ہے کہ روسی صدر شام میں بمباری سے امریکہ پریشان ہوگیا ہے۔ کیونکہ امریکہ کی طرح روس دہرے پیمانے نہیں اپناتا امریکہ ایک طرف آئی ایس کے خلاف ڈرامہ کرتا ہے اوراس کا اصل مقصد بشرالاسد کی سرکار کا تختہ پلٹنا ہے جب کہ روس آئی ایس کو ختم کرنے کے لئے اسد کی فوج کی مدد کررہا ہے۔ مستقبل قریب میں ہے اس سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا روسی فوج شام میں کود پڑیں۔
ادھر امریکی صدر براک اوبامہ نے کہاہے کہ شام کو لے کر روس کی حکمت عملی تباہ کاری کاذریعہ ہے کیونکہ صدر ولادیمیر پتن اسلامی اسٹیٹ کے دہشت گردوں اور شام کے کٹر حکمراں بشرالاسد حکومت کا مقابلہ کرنے والے اصلاح پسند گروپ کے درمیان فرق کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے ایک پریس کانفرنس کہا ہے کہ یہ سچ ہے کہ خطرناک دہشت گرد گروپ اسلامی اسٹیٹ آئی ایس کو ختم کرنے میں دونوں دیش اور پوری دنیا یکساں مفاد شامل ہے انہوں نے بہرحال پتن اس سلسلے میں جو بھی بات کہی اس سے یہ صاف ہے کہ وہ آئی ایس اور اسد کو ہٹانے کی خواہش رکھنے والے مخالف اصلاح پسند سنی کے بیچ فرق نہیں کرتے۔ دراصل ہمیں لگتا ہے کہ روسی صدر شام میں بمباری سے امریکہ پریشان ہوگیا ہے۔ کیونکہ امریکہ کی طرح روس دہرے پیمانے نہیں اپناتا امریکہ ایک طرف آئی ایس کے خلاف ڈرامہ کرتا ہے اوراس کا اصل مقصد بشرالاسد کی سرکار کا تختہ پلٹنا ہے جب کہ روس آئی ایس کو ختم کرنے کے لئے اسد کی فوج کی مدد کررہا ہے۔ مستقبل قریب میں ہے اس سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا روسی فوج شام میں کود پڑیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں