شینا ، اندرانی اور مرڈر مسٹری!

سنسنی خیز شینا بورا قتل کانڈ ویسے تو ایک مجرمانہ واردات ہے مگر اس نے ہمارے آج کے فائیو اسٹار کلچر سماج کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس واردات سے جدید طرز زندگی جینے والا پہلو سامنے لاکر رکھ دیا ہے۔ شینا بورا قتل کانڈ کو لیکر ہورہے تازہ انکشافات کے بعد فطری ہی ہے ایک بار پھر انسانی رشتوں کی کھسکتی زمیں پر تجویز جتائی جانے لگی ہے۔ایک ماں اپنے بچوں کو اس لئے بھائی بہن کی شکل میں پیش کرتی رہی اور انہیں ڈرا دھمکا کر اپنے رشتوں کو اجاگر کرنے سے روکتی رہی کہ اس کا سماجی وقار اورشاہانہ زندگی پر آنچ نہ آئے۔ وہ خود شان و شوکت اور چمک دمک کی زندگی گزارتی رہی لیکن پہلی شادی سے پیدا ہوئے دو بچوں پردے کے پیچھے رکھ کر انہیں اپنے رحم و کرم پر پلنے پر مجبور کرتی رہی۔اپنی شاہانہ شخصیت کو اتنا بے رحم بھی بنا سکتی ہے کہ اپنی ہی اولاد کا گلا گھونٹنے میں اس کے ہاتھ نہیں کانپے۔ اندرانی مکھرجی اس کی تازہ مثال ہے۔ پولیس کی چھان بین سے پتہ چلا ہے کہ اندرانی مکھرجی نے اپنے تیسرے شوہر پیٹر مکھرجی اور آس پاس کے تمام لوگوں سے یہ بات چھپائے رکھی کہ 21-22 سال کی عمر میں اس کی پہلی شادی ہوئی تھی جس سے دو بچے شینا اور میخائل ہیں۔ ان دونوں بچوں کو وہ چھوٹی عمر میں ہی اپنے والدین کے پاس چھوڑ کر اپنی شاہانہ زندگی گزارنے کے خواب دیکھ کر گھر سے نکل گئی تھی۔ پھر اس نے کولکاتہ کے ایک تاجر سے شادی کی بعد میں ایک مشہور انگریزی چینل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر پیٹر مکھرجی سے میل جول بڑھایا اور ان سے شادی کر ساتھ رہنے لگی۔ پہلی شادی سے پیدا ہوئے بڑے بیٹے سے شینا کی محبت ہوگئی تو اندرانی کو ناگوار گزرا اور اس نے شینا کو قتل کردیا۔ کہیں نہ کہیں اس کے پیچھے پیسوں کا معاملہ بھی وابستہ لگتا ہے۔ روز روز نئے انکشاف ہورہے ہیں۔ حالانکہ یہ واردات اتنی الجھی اور اتنی سوالوں میں گھری ہوئی ہے کہ کسی کے بھی بارے میں صاف صاف کچھ کہنا فی الحال مشکل ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس پڑھے لکھے پانچ ستارہ کلچر کے سماج میں پیسہ، عہدہ، وقار اور چمک دمک والی زندگی کا کریز اتنا بھاری ہے کہ اس کی انسانی احساسات کند ہوتے جارہے ہیں۔ آج کے اس دور میں رشتے کتنے کھوکھلے اور خودغرض اور مطلبی ہوگئے ہیں یہ واردات اس کی مثال بن گئی ہے۔ اس سے تو یہ بھی لگتا ہے کہ آروشی قتل کانڈ میں ماں باپ کا ہاتھ ہونا بھی اب ممکن ہی لگتا ہے۔ اس وقت یہ ماننا مشکل لگ رہا تھا کہ کوئی ماں باپ اپنی ہی اولاد کو قتل کرسکتے ہیں؟ مگر جب ایسے رشتے اور جھوٹ اور نہایت خودغرضی کی بنیاد پر بننے لگیں اور سچائی چھپانے کے لئے اپنی ہی اولاد کا قتل کسی عام سرگرمی کی طرح کردیا جائے تو سمجھنا چاہئے کہ انسانی تہذیب کا سفر الٹی سمت میں یعنی بربریت کی طرف مڑ گیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!