قصاب III کی گرفتاری کی اہمیت
قومی سلامتی مشیر سطح کی میٹنگ منسوخ ہونے کے بعد بھی پاکستان اپنے حرکتوں سے باز نہیں آرہا ہے۔ نہ تو اس کے رویئے میں کوئی خاص فرق آیا ہے اور نہ ہی اس کی حرکتوں میں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ مہینے بھر کے اندر ہی بھارتیہ سکیورٹی فورسز کو سرحد پار سے آئے ایک اور دہشت گرد کو زندہ پکڑنے میں کامیابی ملی ہے۔ جہاں جمعرات کو پکڑے جانے سے اس آتنکی سے ہندوستانی فوج کے حوصلے بلند ہیں وہیں قومی بین الاقوامی سطح پر پھر پاکستان بے نقاب ہوا ہے۔ اس سے پہلے اسی ماہ میں ایک دوسرے پاکستانی دہشت گرد کو دیہاتیوں نے دبوچ لیا تھا۔ ایک طرح سے یہ اچھا ہوا کہ بارہمولہ میں سکیورٹی فورس کے ہاتھ لگے آتنکی کی ویسی نمائش نہیں کی گئی جیسے پہلے جانے انجانے میں اور جوش میں آکر ہونے دی گئی تھی۔ فی الحال اس دوسرے آتنکی کے پتے اور ٹھکانے کے بارے میں مفصل طور پر تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔ یہ اس نقطہ نظر سے مناسب ہی ہے، کیونکہ پاکستان فوری طور پر اسے اپنا شہری ماننے سے تو انکار کرتا ہی اور ساتھ ساتھ اس سے متعلق ثبوتوں کو بھی ضائع کرنے میں لگ جاتا ہے۔ جب تک وہ اودھمپور میں پکڑے گئے آتنکی کے گھر والوں کو چھپانے کا کام کرتا تب تک میڈیا کی پہنچ ان تک ہو چکی تھی۔ یہ طے ہے کہ پاکستان اپنے جانے انجانے انداز میں اس آتنکی کے بارے میں بھی یہی کہے گا کہ یہ اس کا شہری نہیں ہے۔ لگتا ہے بھارت کی پالیسی میں تھوڑی تبدیلی کی گئی ہے۔ دراصل زندہ آتنکی کو پکڑنا بھارت سرکار کی نئی حکمت عملی کا حصہ لگتا ہے۔ ہندوستان کی منشا زندہ دہشت گردوں کے ذریعے پاکستان کو بے نقاب کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں سکیورٹی ایجنسیوں کی کوشش آتنکیوں کو مارنے کے بجائے زندہ پکڑنے کی رہی ہے۔ سکیورٹی ماہرین بھی اس حکمت عملی سے متفق ہیں۔ ایک ماہر کا کہنا ہے کہ زندہ آتنکی کے پکڑے جانے سے پاکستان مسلسل بے نقاب ہورہا ہے۔ حالانکہ پاکستان ایک بار پھر حقائق کو نامنظور کرے گا لیکن دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان آخر کیوں بات چیت سے بچ کر بھاگتا ہے؟ پاکستان مسلسل بھارت میں دہشت پھیلانے کی سازشوں میں پوری مشینری کو تعاون دیتا رہا ہے۔ زندہ پکڑے گئے نوید اور سجاد سے پاکستان کے خلاف یہ بنیادی ثبوت تو ہیں، اس سے پوچھ تاچھ میں بھارت کے خلاف لشکر طیبہ ، پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے ذریعے رچی جا رہی سازشوں کے بارے میں بھی پتہ چل سکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ قومی سکیورٹی مشیروں کی میٹنگ سے پاکستان کے پیچھے ہٹنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ بھارت انہیں نوید سے ملی معلومات کی بنیاد پر ٹھوس ثبوت بھی پیش کرسکتا تھا۔ بھارت کے ساتھ رشتوں میں کشمیر کو اہم اشو بتانے والے پاکستان کی ہمیشہ سے منشا تو یہی رہی ہے کہ وہ کسی بھی طرح کشمیر اشو کو بین الاقوامی اسٹیج تک لے جا سکے، لیکن زندہ پکڑے گئے دہشت گردوں سے تو بھارت کا موقف ہی مضبوط ہوتا ہے۔ ہمیں سمجھ میں نہیںآتا کہ بھارت کشمیر کے گلگت ، بلتستان خطے میں بھی اپنے دعوے پر زور کیوں نہیں دیتا؟ کیوں نہیں بھارت بلتستان کی آزادی کا اشو اٹھاتا، بلوچستان 11 اگست 1947ء کو آزاد ہوا تھا۔ یعنی کے بھارت اور پاکستان کی آزادی سے تین دن پہلے۔ آزاد ہونے کے باوجود پاکستان نے اس پر زبردستی قبضہ کررکھا ہے۔ ان کے لیڈروں کا قتل کررہا ہے۔بگتی کا قتل مشرف نے کروایا اور آج بھی پاکستان میں یہ مقدمہ چل رہا ہے۔ ابھی تک بھارت نے عالمی اسٹیج پر کشمیر کو لیکر ڈیفنس رویہ اپنا کر اپنا ہی نقصان کیا ہے۔ بین الاقوامی اسٹیجوں پر یہ بھی بھارت کو اٹھانا چاہئے کہ جب پاکستان اپنے حصے کو متنازعہ مانتا ہے تو کس حیثیت سے اس نے ہزاروں مربع کلو میٹر چین کو دے دیا؟ آج وہاں 50 ہزار چینی فوجی تعینات ہیں جو سڑکیں و ڈھانچہ بنا رہے ہیں۔ آخر بھارت کیوں نہیں ان اشو کو اٹھاتا جس سے پاکستان کو جواب دینا بھاری پڑے؟ بھارت کے پاس یہ اچھا موقع ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس پڑوسی ملک کو نہ صرف بے نقاب کرے بلکہ ڈیفنس رویہ اختیار کرنے پرمجبور ہو۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں