اب کانگریس کا فوکس چناؤ بعد مودی کو روکنا ہے!

کانگریس نے ایک طرح سے اس لوک سبھا چناؤ2014ء میں اپنی ہار مان لی ہے۔ یہ ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کیونکہ کانگریس نے چناؤ کے بعد سرکار کے بارے میں رونما واقعات پر اب اپنی زیادہ توجہ دینی شروع کردی ہے۔ کانگریس نے صاف کردیا ہے کہ اگر وہ چناؤ ہارگئی تو وہ بھاجپا کا کھیل بگاڑنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔اس کے لئے چناؤ بعد بننے والے تیسرے مورچے کی سرکار کو باہر سے حمایت دینے سے لیکر اس میں شامل ہونے تک کے تمام متبادل کو کھلا رکھا ہے۔ کانگریس لیڈر مودی کو چناؤ بعد بھی وزیر اعظم بننے سے روکنے کے لئے پوری کوشش کرے گی۔ کانگریس کے لیڈروں کے بیانوں سے صاف ہوگیا ہے ۔ذرائع کی مانیں اگر این ڈی اے 220 سے230 سیٹوں پر سمٹ جاتی ہے تو کانگریس غیر این ڈی اے پارٹیوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کی حکمت عملی پر کام کرے گی بشرطیکہ اس صورت میں کمانگریس کے پاس بھی 100 سے120 سیٹیں ہوں۔ کانگریس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پارٹی کو 140 کے آس پاس سیٹیں ملتی ہیں تو وہ204 کی طرح این ڈی اے مخالف اتحاد کی قیادت کرنے کے رول میں آسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کانگریس علاقائی پارٹیوں کو اس طرح کے اشارے بھی دے رہی ہے کہ انہیں مودی کی لیڈر شپ سے کہیں زیادہ توجہ کانگریس کی قیادت میں ملے گی۔ ذرائع نے کہا اگر کانگریس کنگ میکر کے رول میں نہیں آتی ہے تو بھی پی ایم عہدے کو لیکر اس کا موقف لچیلا ہے۔ وہ خود کو علاقائی پارٹیوں کے لئے بھاجپا سے بہتر متبادل کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے۔ کپل سبل ،مہاراشٹر میں پرتھوی راج چوہان اور یوپی میں سلمان خورشید نے یہ ہی بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی ہے۔ پارٹی کے لوگ مانتے ہیں کہ اگراین ڈی اے225 سیٹوں تک سمٹ گیا تو بھی باقی اکثریت حاصل کرنے کے لئے اسے مودی کو میدان سے ہٹانا ہوگا کیونکہ ان کے نام پر جے للتا بھلے ہی متفق ہوجائیں لیکن ممتا اور مایاوتی کسی بھی حال میں رضا مند نہیں ہوں گی کیونکہ یوپی اور بنگال میں یہ دونوں ہی ہیں۔ جہاں تک مسلم ووٹروں کا سوال ہے کسی بھی حال میں انہیں نظرانداز نہیں کرسکتیں جبکہ سپا ۔ لیفٹ تو کبھی بھی بھاجپا کا ساتھ نہیں دینے والے ہیں اور نتیش نے تو مودی سے تازہ دشمنی لے لی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کانگریسی سرکردہ لیڈر مسلم اکثریتی علاقوں میں اس بات کا اشارہ کررہے ہیں کہ اگر وہ کانگریس کو ووٹ نہیں دے سکے یا نہ دینا چاہیں تو وہ ایسی پارٹی ایسے امیدوار کی حمایت کریں جو بھاجپا کو روک سکتے ہیں اور کسی بھی حال میں چناؤ بعد بھاجپا سے ہاتھ ملا سکیں۔ بہرحال ایک دلچسپ رپورٹ بہار کے بارے میں شائع ہوئی ہے دربھنگہ: ہم بہاری لڑکے اب کسی اودھو یا راج ٹھاکرے کے ذلالت سہنے والے نہیں۔ ہمارا ضمیر تو کانپ جاتا ہے۔ ہماری روح کانپ جاتی ہے جب ہم ممبئی یا مہاراشٹر میں امتحان دینے کی بات آتی ہے۔ یہ ہی نظریہ بہار سمیت ان ریاستوں کے لڑکوں کا ہے جو علاقائی واد کے شکار ہیں لیکن اب مودی کی لہر ایسے نوجوانوں میں بھی بھروسہ اور امید جگا رہی ہے تبھی تو دربھنگہ کے راج میدا ن میں مودی کی تقریرسننے کے بعد نوجوان کہتے ہیں کہ ہمیں بہار میں ہیں ترقی کے مواقع ملیں تاکہ ہمیں ممبئی یا کسی اور جگہ کا رخ نہ کرنا پڑے۔ مرکز میں تو ہمیں ایک طاقتورپی ایم چاہئے جو ترقی کرسکے اور ہمارے لڑکوں کی امید کو پورا کرسکے اس لئے مودی کو بھی ایک موقعہ دینے میں ہرج کیا ہے؟ نوجوانوں نے کہا کہ اس بار ہم امیدوار نہیں نریندر مودی کا منہ دیکھ رہے ہیں۔ لڑکوں کو امید ہے کہ مودی ترقی کو سبھی ریاستوں میں پہنچائیں گے تاکہ نوجوانوں کا مستقبل بہتر ہو ہم اس اندھیرے کی کال کوٹھری سے باہر نکلیں۔مودی نوجوانوں کے ہیروں ہیں اور اگر انہوں نے ووٹ مودی کو دیا تو کانگریس کی ساری اسکیمیں دھری رہ جائیں گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!