کنفیوز کجریوال کولگتے جھٹکے پر جھٹکے!
اروند کیجریوال کو دسمبر میں جوغیر متوقع شاندار کامیابی ملی تھی اور جنتا نے ان سے جو امیدلگائی ہوئی تھی وہ اب آہستہ آہستہ ہوا ہوتی جارہی ہے۔ خود کیجریوال جس ارادے سے دہلی کے وزیر اعلی کے کرسی کو لات مار کر وارانسی پہنچے اور قومی سیاست میں دھماکہ کرنے کا وہ خواب ٹوٹتا نظر آرہا ہے۔ پچھلے دنوں کیجریوال اینڈ کمپنی کو دوہرا جھٹکا لگا پہلا وارانسی سے اور دوسرالکھنؤ سے۔ پہلے وارانسی کی بات کرتے ہیں مختار انصاری کے چناوی میدان سے ہٹنے کے بعد وارانسی سیٹ سے ڈھائی لاکھ سے زیادہ مسلم ووٹوں کو اپنی طرف کھینچنے کیلئے اروند کیجریوال نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔ ان کی ساری امیدیں ان مسلم ووٹوں پر لگی ہوئی تھیں۔ ’آپ‘ حمایتی امید لگا بیٹھے تھے کہ اروند کیجریوال کی صاف ستھری ساکھ کے علاوہ قومی ایکتا دل کے حمایتیوں کا کانگریس کے مقابلے کیجریوال کے تئیں نرم رخ ہے اور یہ بڑی تعداد میں ان کی طرف آجائیں گے اور نریندر مودی کے خلاف چناؤ میں ان کی حمایت کریں گے لیکن منگل کے روز کانگریس امیدوار اجے رائے کو اپنی حمایت کا اعلان کردیا۔ کانگریس کے قومی نیتاؤں سے لمبی بات چیت کے بعد قومی ایکتا دل کے زونل پردھان محمد سلیم کے مکان پر اخبار نویسوں سے بات چیت میں قومی ایکتا دل کے قومی صدر و سابق وزیر افضال انصاری نے کانگریس کو حمایت دینے کا اعلان کردیا اور کہا کہ ہم نے سانجھہ امیدوار کے اشو پر سبھی سیاسی پارٹیوں کو خط لکھا مگر کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ مجبوراًمودی کو بنارس میں رکنے کے لئے میں نے چناوی میدان سے قومی ایکتا دل کے امیدوار مختار انصاری کو چناؤ میدان سے ہٹا لیا۔ ان کا فیصلہ بڑا فیصلہ تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کانگریس کے قومی سکریٹری جنرل دگوجے سنگھ سمیت کانگریس کے بڑے لیڈروں نے مجھ سے رابطہ قائم کیا۔ دوسرا جھٹکا کیجریوال کو تب لگا جب عام آدمی پارٹی کے بانی ممبر اور قومی کونسل کے نمائندے اشونی اپادھیائے اور 2400 دیگر پارٹی کے ممبران نے پارٹی چھوڑ دی۔ اپادھیائے نے الزام لگایا کہ جس نظریئے کو لیکر عام آدمی پارٹی بنی تھی اور جس سے راغب ہوکر تمام لوگ پارٹی سے جڑے تھے، وہ کہیں کھو گئی ہے اور عام آدمی خود کو ٹھگا محسوس کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی کے چلتے پارٹی کے 8 وارڈ کے کنوینر 40 مقامی امیدواروں سمیت 2400 ورکروں نے باقاعدہ پارٹی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اپادھیائے نے آپ کے بانی ممبر منیش سسودیا، یوگیند یادو، میدھا پاٹکر، ویرا سانیال، اور شازیہ علمی پر سنگین الزام لگاتے ہوئے اروند کیجریوال سے 22 سوال پوچھے۔ انہوں نے پوچھا کہ جن لوک پال بل کے لئے کیجریوال نے جان بوجھ کر غیر آئینی راستے کو کیوں چنا؟ دہلی لوک آیکت کو کیوں مضبوط نہیں کیا گیا؛ اس کے علاوہ ریفرنڈم کرائے بغیر وزیر اعلی کے عہدے سے استعفیٰ کیوں دیا؟ اپادھیائے نے کانگریس سے سانٹھ گانٹھ کا الزام لگاتے ہوئے کہا آپ نے کرپشن مخالف اور اقتدار مخالف رجحان والے ووٹ بانٹنے کے لئے 455 امیدوار کھڑے کئے ہیں جبکہ بھاجپا نے410، کانگریس نے اس سے بھی کم امیدوار کھڑے کئے ہیں، اس کے لئے پیسہ کہاں سے آرہا ہے؟ انہوں نے دعوی کیا کہ سسودیا کے کبیر فاؤنڈیشن کا رجسٹریشن 2007ء میں ہوا تھا پھر انہوں نے2005ء میں فورڈ فاؤنڈیشن سے 44 لاکھ اور 2006 ء میں 32 لاکھ روپے کیسے حاصل کئے؟ اپادھیائے نے یہ بھی سوال کیا کیجریوال کی پارٹی راجستھان میں کانگریس صدر سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا کو زمین گھوٹالے کے معاملے میں کلین چٹ دینے والے یدھویر سنگھ کو حصار لوک سبھا سیٹ سے امیدوار بنایا؟ لگتا ہے کہ کیجریوال آج کل کنفیوز ہوگئے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ وزیر اعلی کے عہدے سے استعفیٰ دینے سے پہلے انہیں لوگوں کی رائے لینی چاہئے تھی، دو دن بعد کہتے ہیں کہ امبانی اڈانی کو جیب میں لیکر گھومنے والوں نے ان کی سرکار گرائی۔ کیجریوال کرپشن اور کالی کمائی کی مخالفت تو کرتے ہیں لیکن ووٹروں سے کہتے ہیں کہ اپوزیشن پارٹی رشوت میں کمبل، ساڑی وغیرہ دیں گے وہ لے لو لیکن ووٹ جھاڑو کو ہی دینا۔ آگے سنئے کہتے ہیں کہ کانگریس میں سودے بازی ہوگئی ہے اس لئے کانگریس مودی پر اور بھاجپا گاندھی خاندان کے خلاف نہ تو ان کے حلقوں میں کمپین کررہی ہے اور نہ ہی کچھ بول رہے ہیں لگتا ہے کہ کیجریوال نہ تو ٹی وی دیکھ رہے ہیں اور نہ ہی نیوز پیپر۔ جھٹکے پر جھٹکے لگنے سے لگتا ہے اروند کیجریوال بوکھلا گئے ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں