آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کے ایک تیر سے کئی نشانے!
بینگلورو میں منعقدہ نمائندگی اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت نے جو کچھ کہا اس کے کئی مطلب نکلتے ہیں۔ دراصل انہوں نے ایک تیر سے کئی نشانے لگائے ہیں۔اس سے پہلے کے ہم بتائیں کہ انہوں نے کیا کہا کس کو کہا یہ سمجھنا ضروری ہے یہ باتیں کیوں کہیں؟ کونسی پریشانی انہیں ستا رہی ہے؟ آج سیاسی حالت یہ ہے کہ پورے دیش میں نریندر مودی کی لہر ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو دہلی کی گدی نظر آنے لگی ہے لیکن جیسے ہی مودی کا گراف بڑھتا ہے بھاجپا کے دوسرے لیڈر کوئی نہ کوئی تنازعہ کھڑا کردیتے ہیں اور جو گراف بڑھتا ہے وہ پھر نیچے آجاتا ہے۔بھاجپا کے سامنے گول پوسٹ ہیں،گول مارکر 2014ء لوک سبھا چناؤ جیتنے کی پوزیشن میں ہے اور موہن بھاگوت کو پریشانی یہ ہے کہیں آخری لمحوں میں ٹیم فائنل کر دوسرے کو پینلٹی نہ تھمادے۔ آخری لمحوں میں جیتا میچ ہار جائے۔ 2004ء کا انڈیا شائننگ مثال ہے۔ آج بھی وہ لوگوں کے دلوں میں تازہ ہے جب ضرورت سے زیادہ بھروسہ یا جسے کہیں توقع سے زیادہ اعتماد۔ بھاجپا چناؤ ہار گئی۔ کہیں تاریخ اپنے آپ کو دوہرانہ دے اسی بارے میں وارننگ دے رہے ہیں بھاگوت۔ ان کا یہ کہنا کہ زیادہ ’نمو نمو‘ نہ جپا جائے۔ موہن بھاگوت نے کہا آر ایس ایس سیاست میں نہیں ،ہمارا کام ’نمو نمو‘ کرنا نہیں ہے۔ ہمیں اپنے مقصد کے حصول کے لئے کام کرنا ہے اس لئے آپ مریادا میں رہ کر کام کریں اور آر ایس ایس کے اصولوں سے کھلواڑ نہ کریں۔ بھاگوت نے صاف کردیا کہ ہمیں کسی شخص خاص کے پروپگنڈے سے دور رہنا چاہئے۔ موہن بھاگوت نے ایک تیر سے کئی نشانے لگائے ہیں جن پر نشانہ لگایا وہ اتفاق سے اسٹیج پر اس وقت موجود تھے۔ میں بھاجپا صدر راجناتھ سنگھ کی بات کررہا ہوں۔ سنگھ اور بھاجپا میں تال میل کرنے والے رام لال کی بات کررہا ہوں۔ وارنسی اور لکھنؤ سیٹ پر چھری ٹکٹ جنگ سے بھاجپا کی پوزیشن خراب ہوئی ہے۔ جنتا کو یہ کہنے کا موقعہ مل گیا کہ بھاجپا کے تو اندرونی جھگڑے ختم ہوتے نہیں دکھائی دے رہے یہ دیش کیا چلائیں گے؟ سارے تنازعے کی جڑ راجناتھ سنگھ جو غازی آباد سے بھاگنا چاہتے ہیں اور لکھنؤ سے چناؤ لڑنا چاہتے ہیں۔ لکھنؤ کی خاص اہمیت ہے یہیں سے اٹل بہاری واجپئی چناؤ جیتا کرتے تھے۔ یہاں سے مودی کے چناؤ لڑنے سے یوپی اور پوروانچل مل کر 28-30 سیٹوں پر اثر پڑتا ہے اسی لئے مودی کو یہاں سے لڑنے کی صلاح دی گئی ہے لیکن کیونکہ راجناتھ خود یہاں سے لڑنا چاہتے ہیں اس لئے انہوں نے مودی کو سمجھا کہ وہ بنارس سے لڑ لیں۔بنارس سے ڈاکر مرلی منوہر جوشی چناؤ جیتے تھے لکھنؤ سے لال جی ٹنڈن۔ یہ دونوں بڑے لیڈر اپنی سیٹیں چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ مودی کی خاطر چھوڑ بھی سکتے ہیں لیکن راجناتھ کی خاطر شاید ہی؟ اس لئے پہلا پیغام تو راجناتھ سنگھ کے لئے تھا آپ اپنی چالاکی سے باز آجاؤ اور جیتی ہوئی بازی ہروا نہ دینا۔ دوسرا پیغام رام لال کے لئے تھا کہ آپ سنگھ کا نام لیکر بھاجپا میں ایک خاص شخص کی پیروی نہ کریں۔ آپ آر ایس ایس کا نام لیکراپنی سیاست کرنے سے باز آئیں۔ تیسرا پیغام خود مودی کے لئے تھا۔ بھاگوت نے مودی کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ آپپارٹی سے بڑے نہیں ہو۔ آج حالت کیا ہے؟ آج مودی بھارتیہ جنتا پارٹی سے بہت اوپر ہوچکے ہیں اب سنگھ کو ڈر لگ رہا ہے کہ مودی کسی کے بھی کنٹرول سے باہر ہیں۔ انہوں نے گجرات میں یہ کر دکھایا ہے۔ انہیں نہ تو آر ایس ایس کی پرواہ ہے اور نہ ہی دوسری تنظیموں کی۔ وشو ہندو پریشد کو تو ٹھکانے لگادیا گیا۔ ڈاکٹر پروین توگڑیا جیسے کٹر لیڈر کو گھر بٹھا دیا ہے۔ آر ایس ایس کو ڈر ہے کل کو اس پر کون کنٹرول کرے گا کہیں وہ اتنے بے قابو نہ ہوجائیں کہ سبھی کے کنٹرول سے باہر ہوجائیں؟ ایک پیغام دیش کی اقلیتوں کے لئے بھی تھا کہ سنگھ نہ تو اتنا کٹر ہے اور نہ ہی نمو نمو جپنے والا ہے۔ بھاجپا کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی ، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کو جس ڈھنگ سے نظرانداز کیا جارہا ہے اس سے بھی موہن بھاگوت پریشان ہیں اس لئے انہوں نے راجناتھ سنگھ اور مودی جوڑی کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ سب کو ساتھ لیکر چلو گے تو بہتر رہے گا۔ آخر میں آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے بھاجپا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ آپ ہمارے چنگل سے نہیں نکل سکتے۔ جتنا مرضی پھڑ پھڑا لو رہو گے تو ہمارے ہی تحت۔ جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ بھاگوت کی تجاویز کا کیا اثر ہوا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں