انٹونی پاکستان کے وزیر دفاع ؟ کیوں نہ ہو حافظ سعید میں اتنی ہمت

شری اے ۔ کے۔انٹونی بھارت کے وزیر دفاع ہیں یا پاکستان کے؟ جس طرح وہ یہ بیان دیتے ہیں اس سے تو یہ ہی لگتا ہے کہ وہ پاکستان کے وزیر خارجہ ہیں ان کا یہ کہنا کہ پونچھ سیکٹر میں بھارتیہ جوانوں پر گھات لگاکر حملہ کرنے والے آتنکی تھے جو پونچھ سینا کی وردی پہنے ہوئے تھے۔ اس پر ہنگامہ ہونا فطری ہی تھا۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ انٹونی جیسے سلجھے شخص نے ایسا مضحکہ خیز بیان کیسے دے دیا۔ یہ ہی نہیں پاکستان کے طرح بار بار بیان بھی بدلا۔ 6 اگست کوکہا کہ بھاری ہتھیاروں سے لیس20 آتنکیوں نے حملہ کیا۔ ان میں سے کچھ نے پاکستانی فوج کی وردی پہنی ہوئی تھی۔ اس سے اگلے دن کہا میں نے جو ایوان میں جانکاری دی وہ اس وقت تک دستیاب اطلاع کی بنیاد پر دی تھی۔ فوج کے سربراہ کے لوٹنے پر ایوان کو پوری تفصیل پیش کریں گے۔ پھر اس کے بعد 8 اگست کو کہا کہ اب یہ صاف ہے پاکستانی فوج کی خصوصی فوجی ٹیم ہی اس حملے میں شامل تھی۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ پاکستانی فوج کی حمایت اور مدد اور سہولت مہیا کرائے بغیر اور اس کی درپردہ سانجھے داری کے بغیر پاکستان کی جانب سے کچھ نہیں ہوتا۔ انٹونی کے پہلے بیان کا نتیجہ یہ نکلا کے پاکستان اور جہادی تنظیموں کو نہ صرف بہانا مل گیا بلکہ ان کے حوصلے اور بلند ہوگئے۔ تبھی تو26/11 کے ماسٹر مائنڈ حافظ سعید نے کراچی میں ایک ریلی میں کہا سال2000ء میں لال قلعہ پر ہوئے حملے کو اسی طرح دوہرایا جائے۔ اس نے کہا کہ ایسا حملہ کرنا بہت ضروری ہے۔سعید نے لاہور میں ہزاروں لوگوں کے ساتھ عید کی نماز ادا کی۔ پاکستان کے مشہور قزافی اسٹیڈیم میں نماز عید پڑھائی بھی۔ اس کے کچھ گھنٹے پہلے جماعت الدعوی کے چیف نے ٹوئٹ کیا تھا کے وقت نزدیک ہے جب کشمیر ،فلسطین اوربرما پسماندہ لوگ آزادی کی ہوا میں عید منائیں گے۔ ہزاروں لوگوں نے سعید کے ساتھ عید کی نماز ادا کی۔ سعید پر ایک کروڑ روپے امریکی ڈالر کا انعام ہے۔ سعید کے پوسٹر شہر کے مختلف مقامات پر لگے تھے۔ ہم حافظ سعید کو قصوروار نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہمارے اپنے وزیر دفاع ان کی طرفداری کرنے میں لگے ہیں اور جس سرکار کے وہ وزیر ہیں اس نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں۔ آہستہ آہستہ اس خطرناک حملے کی تفصیلات آرہی ہیں۔ پونچھ کے سرلا گاؤں کے پاس چیک پوسٹ پر پاکستان کی مجاہدین ریجمنٹ نے ہی حملہ کیا تھا۔ حالانکہ اس بارے میں فوج ہیڈ کوارٹر اتنا ہی کہہ رہا ہے کہ جہاں حملہ ہوا تھا اس کے اس پار 801 مجاہدین ریجمنٹ تعینات ہے۔ لیکن خفیہ ذرائع بتاتے ہیں کہ حملے میں مجاہدین ریجمنٹ ہی شامل تھی۔ اس ریجمنٹ میں لشکر طیبہ کے چیف محمد حافظ سعید کی اچھی پکڑ ہے۔ ہماری سرکار جو کررہی ہے وہ شرمناک ہے۔ ہماری فوج کیا کررہی ہے؟ کبھی وہ ہمارے جوانوں کے سر کاٹ کر لے جاتے ہیں تو کبھی گھات لگاکر سرحد کے اندر 400 میٹر آکر 5 فوجیوں کو مار ڈالتے ہیں ۔ کیا ہماری فوج ایسے حملوں کا جواب دینے کے لئے تیار نہیں رہتی؟تازہ حملے کے بعد حالات کا جائزہ لینے پونچھ گئے جرنل بکرم سنگھ نے نارتھ کمان کے حکام کی جاکر کلاس لی اور انتہائی اعلی ترین ذرائع کے مطابق انہوں نے بنیادی ڈھانچے پر سوال اٹھایا کے لائن آف کنٹرول پر ایسے کمانڈو آپریشن کو روکنے کے لئے لگے جوان رات میں بھی ٹھیک ڈھنگ سے کام کرنے والی ایم ایم ٹی آئی دوربین کی سہولت کے باوجود ایس ایس جی آپریشن کو کیوں نہیں روک پا رہے ہیں؟ جنوری میں بھی ایس ایس جی نے میندھر علاقے میں ایل او سی کے اندر گھس کر دو جوانوں کو مار ڈالا تھا اور ایک کا سر کاٹ کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ ذرائع کے مطابق بکرم سنگھ نے یہ سوال بھی اٹھایا کے جنوری میں جوانوں کے سر کاٹنے کے واقعے کے بعد ایس او پی کی (اسٹینڈر آپریشن پروسیجر) کی تعمیل کیوں نہیں کی گئی۔ دیش کی عزت تو داؤ پر ہے لیکن اس سے زیادہ ہندوستانی بری فوج کا وقار داؤ پر ہے جو بار بار وہی غلطی دوہراتی چلی آرہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!