داؤد اس کی سرزمیں پر ہے پاکستان کا پہلی بار اعتراف

آخر کار پاکستان کا ایک برسوں پرانا جھوٹ کھل کر سامنے آ ہی گیا۔ پہلی بار پاکستان نے ہندوستان کے انتہائی مطلوب دہشت گرد داؤد ابراہیم کی اپنی سرزمیں پر موجودگی کی بات کو قبول کرلیا ہے۔ اب تک اسلام آباد انڈر ورلڈڈان کے اپنے یہاں ہونے سے صاف انکاکرتا رہا ہے اور اب اس بات کا خلاصہ کیا ہے کہ ڈان پاکستان میں ہے بلکہ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے خصوصی مشیر شہر یار خاں نے اس بات کا انکشاف کیا تھا۔ لیکن اس کے24 گھنٹے بعد انہوں نے اپنے بیان سے پلٹی ماری اور کہہ دیا کہ داؤد ابراہیم کو کبھی بھی پاکستان میں نہیں دیکھاگیا۔اوراب وہ متحدہ ارب امارات میں ہوسکتاہے۔ پاکستان میں اقتدار میں لوٹنے کے بعد نواز شریف نے شہریار خاں کو بھارت کے ساتھ بہتر رشتے بنانے کے لئے مقرر کیا ہے۔ خاں نے کہا کہ داؤد ابراہیم پاکستان میں تھا لیکن میرا یہ خیال ہے کہ اسے نکالا جاچکا ہے۔ اگروہ پاکستان میں ہے تو اسے تلاش کرکے گرفتار کیا جانا چاہئے۔ ہم اپنی سرزمیں پر ایسے کسی ڈان کی سرگرمیاں چلانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ انہوں نے لندن میں ہندوستانی پترکار ایسوسی ایشن کے ذریعے منعقدہ ایک اجراء تقریب سے پہلے اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے یہ خلاصہ کیا تھا۔ ویسے بتا دیں کہ شہر یار خاں 1993ء میں پاکستان کے خارجہ سکریٹری تھے جب ممبئی دھماکے کے دوران داؤد نے بھاگ کر پاکستان میں پناہ لی تھی تب سے شہر یار بتائیں کے داؤد پاکستان میں رہ رہا تھا یا نہیں۔ غور طلب ہے کہ 1993ء میں ممبئی میں ہوئے دھماکوں کا ملزم داؤد ابراہیم اور ٹائیگر میم جیسے ملزم ریڈ کارنر نوٹس کے باوجود دو دہائی سے پاکستان میں روپوش ہے۔ سی بی آئی کے ایک سینئرافسر نے بتایا کہ موجودہ سسٹم میں انٹر پول عام مجرموں اور دہشت گردوں کے لئے ایک ہی ریڈ کارنرنوٹس جاری کرتا ہے۔ اس ریڈ کارنر نوٹس پر کارروائی کے لئے کسی دیش کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ انٹر پول کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر پاکستان دو دہائی سے داؤد ابراہیم کو اپنے یہاں پناہ دئے ہوئے ہے۔ حالت یہ ہے کہ پاکستان داؤد کی اپنے یہاں موجودگی سے ہی انکارکرتا رہا ہے جبکہ بھارت اس کے ٹھکانے کے بارے میں بار بار ٹھوس ثبوت پیش کرتا رہا ہے۔ توجہ دینے کی بات ہے کہ اقوام متحدہ اور امریکہ نے بھی داؤد ابراہیم کو بین الاقوامی دہشت گرد اعلان کررکھا ہے۔ تین دن پہلے میں نے ایک ہندی فلم ’ڈی ڈے‘ دیکھی تھی۔ میری رائے میں یہ بہت ہی اچھی فلم بنی ہے۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کس طرح داؤد ابراہیم کو اسامہ بن لادن کی طرز پر کراچی سے اٹھا کر بھارت لایا جاسکتا ہے۔ اگر آپ سوچتے ہیں کہ ’ڈی ڈے‘ صرف ’را‘ کے ایجنٹوں اور اس کے مشن کو لیکر بنی ہے تو آپ غلط ہیں۔ ڈائریکٹر نکھل اڈوانی نے صاف طور سے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ’را‘ کے ایجنٹ حقیقت میں کیا حاصل کرسکتے ہیں۔ ’ڈی ڈے‘ فلم چار ’را‘ ایجنٹوں کی کہانی ہے جو پاکستان میں پناہ لئے گولڈ مین ’’داؤد‘‘ کو پکڑ کر بھارت لانے کے مشن پر ہے۔
پینیٹا کا ایک سابق افسر (ارجن رام پال) سرحد پر اپنی شناخت چھپا کر رہنے والے ولی خان (عرفان خان) زویا (ہما قریشی) مجرم سے خفیہ ایجنٹ بنے عالم(آکاش دہائیہ) کا مقصد اقبال(رشی کپور) جو داؤد کا کردار نبھا رہا ہے، کو زندہ پکڑ کر لانا ہے۔ غیر ملکی سرزمیں پر اپنے مشن پر لگے ایجنٹوں کو کافی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مشن کے دوران رودر پرتاپ سنگھ(ارجن رام پال) ایک طوائف (شروتی حسن) سے جذباتی طور سے جڑ جاتا ہے۔ رودر سے الگ ولی کا اپنا خدان ہے، جسے وہ بہت چاہتا ہے۔ گولڈ مین کے بیٹے کی شادی ایک بڑے ہوٹل میں ہوتی ہے اور وہیں اسے پکڑنے کا پلان بنایا جاتا ہے۔ کاغذ پر صاف نظر آنے والا پلان حقیقت میں بہت دھندلا ہوجاتا ہے، گڑبڑیاں ہوتی ہیں اور کچھ ایسے مسئلے کھڑے ہوجاتے ہیں جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ یہ چاروں جانباز افسر مصیبت کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔ پاکستانی پولیس ، گولڈ مین کے گرگے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور بھارت سرکار بھی ان سے پلہ جھاڑ لیتی ہے۔ تمام مشکلوں میں پھنسے چاروں لوگ جان بچا پاتے ہیں یا نہیں؟ گولڈ مین کو بھارت لا پاتے ہیں یا نہیں؟ یہ ایک تھریلر کی شکل میں فلم میں دکھایا گیا ہے۔ اداکاری کی اگر بات کریں تو سبھی کرداروں نے زور دار کام کیا ہے۔ رشی کپور نے اپنی چاکلیٹ اور رومانس والی امیج سے الگ ایک ڈان کے کردار کو خوب نبھایا ہے۔ عرفان خاں نے ایسے شخص کا کردار نبھایا ہے جو فرض اور خاندان کے درمیان محاذ آرا رہتا ہے۔ ارجن رام پال نے کم سے کم ڈائیلاگ بول کر بھی اپنی بات صاف کہہ دی۔ لڑکیوں نے بھی اچھا رول نبھایا ہے۔ فلم کے لئے بہت باریکی سے ریسرچ کی گئی ہے۔ حقیقت میں ایسا ہی کچھ ہوگا۔ کل ملاکر اچھی فلم ہے۔ کلائمکس بچا ہے یہ نہیں بتاؤں گا، آپ خود دیکھیں۔ آپ کو احساس ہوگا کہ ہاں واقعی میں کیا ایسا ہوسکتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟