اور اب وی وی آئی پی گھوٹالے کی باری!

بوفورس تنازعے کے بعد بچولیوں کے شامل ہونے اور کمیشن خوری کو روکنے کے لئے وزارت دفاع اور بھارت سرکار نے کئی ضابطوں میں اس لئے تبدیلی کی تھی کہ دفاعی سودے میں گھوٹالے کو روکا جاسکے۔ لیکن دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ دلالی اور گھوٹالے کا یہ سلسلہ رکا نہیں۔ اب تو وی وی آئی پی گھوٹالہ ہوگیا ہے۔ وی وی آئی پی ہیلی کاپٹر اگستا ویسٹ لینڈ سودا تنازعے میں آگیا ہے۔ اب سی اے جی نے بھی اس سودے کی گڑ بڑی کے الزام لگائے ہیں۔ اپنی رپورٹ میں سی اے جی نے کہا ہے کہ رکشا منترالیہ نے خریدی ضابطوں کو منمانے طریقے سے بدلا۔ سستے ہیلی کاپٹر مہنگی قیمت پر خریدنے کا معاہدہ کرلیا۔ رپورٹ منگلوار کو راجیہ سبھا میں پیش کی گئی۔ رکشا منترالیہ نے2010ء میں 3727 کروڑ روپے میں 12 وی وی آئی پی ہیلی کاپٹر خریدنے کا سودا کیا تھا۔ اٹلی کی کمپنی فن میوینا کو ہیلی کاپٹر کی سپلائی کرنی تھی۔ اس سال کے شروع میں کمپنی پر سودے کے لئے قریب 350 کروڑ روپے رشوت دینے کے الزام لگے۔ سی اے جی نے اپنی رپورٹ میں کئی بے قاعدگیاں گنائی ہیں۔ ایئرفورس کے میدانی تجربوں کے طور طریقے صحیح نہیں تھے۔سودے کے لئے چنے گئے دو ہیلی کاپٹروں اگستاویسٹ لینڈ 101 آئی،میکواسکی کے ۔ایس92 کے برابری کے موقعے نہیں دئے گئے۔ میدانی تجربوں کے وقت اگستا ویسٹ لینڈ ترقی کے دور میں تھا۔ کمپنی نے اصلی ہیلی کاپٹر کے بجائے مرلن ایم۔کے3 اور شپ1- ہیلی کاپٹر پر تجربہ کرادیا۔ سودے میں شفافیت شرائط کوجس مقصد سے بدلا گیا تھا وہ پورا نہیں ہوااس کے برعکس سودے کے لئے صرف ایک کمپنی بچی اور اگستا اے ۔ڈبلیو101 کو چن لیا گیا۔ معاہدے میں ویسے پرائس 4.871 کروڑ روپے طے کئے گئے تھے جبکہ کمپنی کی طرف سے پیشکش ہی صرف3.966 کروڑ روپے کی تھی۔یعنی بھاؤ جان بوجھ کر بڑھائے گئے۔1240 کروڑ روپے کی لاگت سے زیادہ ہیلی کاپٹروں کی خریداری سے کیا جاسکتا تھا کیونکہ اس وقت وی وی آئی پی بیڑے میں شامل ہیلی کاپٹروں کا استعمال بھی نہیں ہورہا تھا۔اگستا ویسٹ لینڈ نے بھارت میں سرمایہ کاری کے لئے طے دفاعی معیاروں پر عمل نہیں کیا اور کمپنی نے جن بھارتیہ آف سیٹ پارٹنروں کو چنا وہ اس کے قابل ہی نہیں تھے۔ ہیلی کاپٹر بنانے والی کمپنی اٹلی میں خود اپنے دیش میں بھرشٹاچار کا مقدمہ جھیل رہی ہے اور یہاں بھارتیہ وایوسینا کے پرمکھ سی ۔کے تیاگی اور ان کے رشتے داروں کے خلاف بھی سی بی آئی نے مقدمہ درج کر رکھا ہے۔ٹو جی اسپیکٹر سودا یاکوئلہ گھوٹالہ جیسے بھرشٹاچار کے سامنے قد میں یہ سودا بونا ہے لیکن سی اے جی نے جس طریقے سے اس سودے میں بے قاعدگیاں گنائی ہیں وہ یقیناًچونکانے والی ضرور ہیں۔ سب سے زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ راشٹرپتی اور پردھان منتری جیسے دیش کے معزز لوگوں کی اڑان کے لئے خریدے جارہے ان ہیلی کاپٹروں کے اسٹنڈرڈ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوئی۔ سی اے جی کی انگلی صرف پردھان منتری دفتر اور اس وقت کے دفاعی صلاح کار پر اٹھنے سے معاملہ نہایت گمبھیر ہوجاتا ہے۔پھر یہ بات کم چونکانے والی نہیں کہ اگستا کے یہ ہیلی کاپٹر ابھی بن ہی رہے تھے کہ ان کا ٹیسٹ کرکے پاس کردیا گیا۔ظاہر ہے کہ یہ ٹیسٹ ان ہیلی کاپٹروں پر تو نہیں ہوئے ہوں گے جنہیں حقیقت میں ہمیں استعمال کرنا تھا۔ ٹیسٹ کے لئے دوسرے ہیلی کاپٹروں پر ہی تجربے کرواکر سرٹیفکیٹ لے لیاگیا۔ دیش کے ساتھ اس سے بھدا مذاق اور کیا ہوسکتا ہے۔ چونکانے والی بات یہ ہے کہ یہ راز بھارت میں نہیں بلکہ خود اٹلی میں کھلا، جہاں کمپنی پر وہاں کی راجنیتک پارٹیوں کے بیچ رشوت بانٹنے کے الزام لگے تھے اور اس دوران بھارت کے ساتھ ہوئے سودے کی بات بھی کھل گئی۔ جن دنوں اٹلی میں جانچ شروع ہوئی اور شک کی سوئیاں گھومنے لگیں انہیں دنوں موجودہ سینا ادھیشک جنرل وی۔کے ملک نے ٹیٹرا ٹرکوں کی خرید کو منظوری دینے کے لئے انہیں ایک بچولئے کے ذریعے رشوت کی پیشکش کئے جانے کا خلاصہ کیا تھا۔ اس پر اٹھے تنازعے کے بعد رکشا منتری انٹونی نے تینوں پرمکھوں سے بات چیت کر رکشا خرید کی مربوط پالیسی کا اعلان کیا لیکن ہیلی کاپٹر سودے میں شک کے موقعے بار بار آنے کے باوجود رکشا منترالیہ سچیت کیوں نہیں ہوا ؟ یا پھر اوپری دباؤ کی وجہ سے سبھی ضابطوں کو سوچ سمجھ کر نظر انداز کیا گیا؟
(انل نریندر)


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟