سڑکوں پر پانی بھرا تو افسر نپیں گے!

تمام دہلی کے باشندے ہائی کورٹ کے شکر گذار ہیں کہ آخرکسی نے تو مانسون کے دوران پانی بھرنے سے روکنے میں ناکام رہنے کے سبب بلدیاتی ایجنسی کی جم کرکھنچائی کی ہے۔ہائی کورٹ کے کارگذارچیف جسٹس بی ڈی احمد و جسٹس یوبروا کی بنچ نے کہا کہ پچھلی سماعت کے دوران یہ انڈر ٹیکنگ دی گئی تھی کہ اگلی بارش میں پانی نہیں بھرے گا۔ عدالت نے ایم سی ڈی کمشنروں سے کہا کہ وہ ہرایک علاقے کے ڈپٹی کمشنر کی ذمہ داری طے کریں کے پانی بھرنے سے روکنے کے لئے کیا قدم اٹھائیں۔ یہ قدم قلیل المدت بنیاد پرہوں۔ اگر وہ اس میں ناکام ہوتے ہیں تو ان کے خلاف ڈسپلن کی کارروائی کی جائے گی۔ عدالت نے کہا کہ ایم سی ڈی کمشنر ہر ایک علاقے میں ڈپٹی کمشنر کی ذمہ داری طے کریں گے۔ اگر ڈپٹی کمشنر اپنی ذمہ داری نہیں پوری کرتے تو ایم سی ڈی کمشنر کارروائی کریں گے۔ عدالت نے پی ڈبلیو ڈی کے سپرنٹنڈنٹ انجینئر پر ذمہ داری طے کرنے کو کہا ہے۔ کورٹ نے کہا کہ پچھلی سماعت کے دوران دہلی سرکار اور ایم سی ڈی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ نالے صاف ہوں گے۔ لیکن حلف نامے میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس میں میٹنگ اور ٹاسک فورس کے بارے میں جانکاری دی گئی لیکن نالے کے سسٹم کی صفائی کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔ غور طلب ہے کہ برسات کے موسم میں دہلی کی سڑکوں، محلوں، بازاروں میں پانی بھرنا عام بات ہے۔ ہر سال اسے لیکر سرکار ایم سی ڈی کو عدالت کی پھٹکار سننی پڑتی ہے۔ بھروسہ دلایا جاتا ہے کہ جلد ہی حالت پر قابو پالیا جائے گا مگر نتیجہ وہی ’دھاک کے تین پات‘ نکلتا ہے۔ برسات شروع ہوتے ہی جس طرح مختلف علاقوں میں یہاں تک کہ پاش علاقوں میں بھی پانی بھر گیا ہو تو دہلی ہائی کورٹ کو مجبوراً پانی بھرنے کے حالات سے نمٹنے کا حکم دینا پڑا۔ پانی کھڑا ہونے کی سب سے بڑی وجہ نالیوں کی یومیہ صفائی نہ ہونا پانا ہے۔ حالانکہ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کے پلاسٹ کے تھیلوں ، پلیٹوں وغیرہ کے نالیوں میں جمع ہونے سے بھی پانی کی نکاسی میں رکاوٹ آتی ہے۔ اگر کچرے کو نپٹانے کا طریقہ اپنانا ایم سی ڈی کی ذمہ داری نہیں ہے تو کس کی ہے؟ امید کرنی چاہئے کہ ایم سی ڈی کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوگا اور دہلی کا ڈرینج سسٹم صحیح کرنے کی سنجیدہ کوشش کرے گی۔ جگہ جگہ پانی بھرجانے سے سڑکوں پر گھنٹوں جام لگ جاتے ہیں جس سے دہلی کا ٹریفک بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ جب ہر سال مانسون آتا ہے تو سمجھ میں نہیں آتا مسئلے کے حل کے لئے فوری قدم کیوں نہیں اٹھائے جاتے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟