ہمیں تم پر فخر ہے پی ۔ وی سندھو!

ورلڈ بیڈ منٹن چمپئن شپ میں قریب 30 سال بعد تانبے کا میڈل جیتنے والی پی۔ وی سندھو نے ہندوستانی کھلاڑیوں کے لئے ایک نئی مثال تو قائم کی ہے ساتھ ہی ان کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ بھارت میں کرکٹ کے علاوہ اور بھی کئی کھیل ہیں اوردیگر کھیلوں میں بھی نوجوان کھلاڑی دلچسپی لے رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر ہندوستانی کھیلوں کے اچھے مستقبل کی امید اب ہم کرسکتے ہیں۔ سندھو نے پچھلے ایک سال سے ہی اپنی چمک بکھیرنی شروع کر دی تھی لیکن وہ دیش کی اسٹارشاٹلر سائنہ نہوال سے پہلے بیڈمنٹن ورلڈ چمپئن شپ میں میڈل جیتے گی اس کا شاید کبھی تصور کسی کو نہ رہا ہو۔ ویسے بھی مہلامقابلوں میں یہ کامیابی پانے والی پہلی ہندوستانی ہے۔ پی۔وی سندھو نے ڈرا دیکھ کر ہی سمجھ لیا تھا کہ ان کے لئے سفر آسان نہیں ہے لیکن اس ابھرتی ہوئی ہندوستانی بیڈمنٹن کھلاڑی نے کہا کہ انہوں نے کبھی خودکو کسی سے کم کر کے نہیں دیکھا۔ ایک کے بعد ایک چیلنج کو پار کرتے ہوئے چین کے گوانگ میں ورلڈ چمپئن شپ میں تاریخی تانبے کا میڈل حاصل کر اپنے ساتھ ساتھ دیش کی شان کو بھی بڑھایا ہے۔ 18 سالہ سندھو اس وقاری مقابلے میں میڈل جیتنے والی پہلی ہندوستانی خاتون کھلاڑی ہیں۔ سندھو نے کہا میں سیمی فائنل میں دنیا کی تیسرے نمبر کی کھلاڑی تھائی لینڈ کی رتناچوک سے ہارنے سے تھوڑی مایوس ہوئی ہوں لیکن میں تانبے کا میڈل جیتنے سے خوش ہوں۔ یہ میری پہلی ورلڈ چمپئن شپ تھی اور یہ میرے لئے بڑی کامیابی ہے۔ سندھو نے تانبے کا میڈل ہی نہیں جیتا بلکہ اس مہم کے دوران دو بار دیوار چین کو بھی پار کیا۔ انہوں نے پری کوارٹر فائنل میں دوسری اور پچھلی ورلڈ چمپئن شپ چہانگ وانگ کو کوارٹر فائنل میں چین ہی کی کھلاڑی شیزان کو ہراکر یہ ثابت کردیا کے وہ بیزلیگ کھلاڑی بن گئی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ انہیں سائنہ جیسی کامیابی پانے کے لئے ابھی لمبا سفر طے کرنا ہوگا لیکن ابھی وہ 18 سال کی ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب وہ نیشنل چمپئن بنے گی اور اولمپکس میں اپنا نام لکھوا سکیں۔
دراصل سندھو کا یہ کارنامہ ہندوستانی کھیلوں کے لئے اس لئے بھی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ بھارت میں گلیمر، پیسہ اور رتبہ جس طرح کرکٹ سے جڑا ہے ویسے ہی دیگر کھیلوں کے ساتھ نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھارت میں بغیر کوئی مخصوص سرکاری مدد کے نوجوان کھلاڑی دوسرے کھیلوں میں لگے ہیں۔ ان کی بھی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ دیش میں کھیلوں کو بڑھاوا دینے کے لئے پیشہ ور بنیادی ڈھانچہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے کارپوریٹ سیکٹر کو بھی ان کھیلوں کو بڑھاوا دینے کے لئے پیشہ ور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی اور سہولیات فراہم کرنے کے لئے آگے آنا ہوگا۔ ہماری ڈیفنس میں خاص کر فوج میں دیگر کھیلوں میں کئی کھلاڑی آگے آئے ہیں۔ سوا کروڑ کی آبادی والے اس دیش میں دو چار اولمپک میڈلوں پر اکتفا کرلینے کی ذہنیت کو اب بدلنا ہوگا۔ ہاکی، کشتی، تیر اندازی اور فٹبال ،کھوکھو، کبڈی، سائکلنگ،تیراکی جیسے دیگر کھیلوں میں بھی ہمیں عالمی سطح پر چین کی طرح کھلاڑی تیار کرنے ہوں گے۔ سندھو کو اس شاندار کامیابی پر مبارکباد۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟