میڈیکل کے مشترکہ امتحان پر سپریم کورٹ کا متنازعہ فیصلہ!

ڈاکٹر بننے کی چاہت رکھنے والے لڑکوں کو سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے سے زبردست جھٹکا لگنا فطری ہے۔ اب انہیں پھر سے دیش میں گھوم گھوم کر مختلف میڈیکل کالجوں کے داخلہ امتحان دینے پڑیں گے۔ کالجوں کے مہنگے پروسپیکٹس خریدنے میں ان کو اپنی جیبیں خالی کرنی پڑیں گے اور لاکھوں کروڑوں روپے کے ڈونیشن بازار پھرسے گرم ہوجائیں گے۔ سپریم کورٹ نے میڈیکل اور ڈینٹل کورسز میں داخلے کے لئے نیٹ یعنی قومی اہلیت ایڈمیشن ٹیسٹ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے منسوخ کردیا ہے۔ غور طلب ہے کہ معاملے کی سماعت کررہی تین نفری بنچ کے ایک جج نے اس سے نا اتفاقی ظاہر کی ہے لیکن اکثریت سے آئے فیصلے کے پیچھے دلیل یہ ہے کہ این سی آئی یعنی بھارتیہ میڈیکل کونسل کو یہ امتحان کرانے کااختیار نہیں ہے۔ اس کا کام میڈیکل کاروبار سے متعلق گائڈلائنس اور پیمانے طے کرنے تک محدود ہے۔ عدالت کا کہنا ہے بھارتیہ میڈیکل یا ڈینٹل کونسل کو ایسا ٹیسٹ لینے کا اختیار ہی نہیں ہے جس سے ریاستوں کے پرائیویٹ یا اقلیتی اداروں کے ذریعے چلائے جانے والے میڈیکل کالجوں کے اختیارات کی عدولی ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے میڈیکل تعلیم اور غیر برابری کے اس چوراہے پر لاکر کھڑا کردیا ہے جہاں سے چار سال پہلے عدالت عظمیٰ نے ایک امتحان لینے کی راہ دکھائی تھی اور داخلے کے لئے 40-40 لاکھ روپے لیکر 1 کروڑ روپے تک وصولے جاتے تھے جس سے غریب اور پسماندہ طبقے کے بچوں کے لئے میڈیکل تعلیم کا حصول مشکل ہوگیا تھا۔ نیٹ سسٹم لاگو ہونے سے ایسے نجی میڈیکل کالجوں پر روک لگی تھی مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب وہ پھر سے اپنے یہاں داخلے شروع کرسکیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عدالت نے یہ فیصلہ نفع نقصان کو ذہن میں رکھ کر کیا ہے؟ این آئی ٹی کی ضرورت اس لئے پڑی کے میڈیکل اور ڈینٹل کورسز میں داخلے کے خواہشمند طلبہ کو نجی میڈیکل کالجوں سے لیکر سینٹرل اور ریاستی سطح کے اداروں تک الگ الگ درجنوں امتحانات میں بیٹھنا پڑتا تھا اس سے وہ برابر الجھن اور کشیدگی میں رہتے تھے۔ اور بہت سارے امتحانات کے لئے تیاری اور دوروں کے سلسلے میں ان کا کافی پیسہ بھی خرچ ہوتا تھا۔پرائیویٹ کالجوں کے علاوہ بہت سی ریاستوں نے بھی مشترکہ داخلہ ٹیسٹ پر اعتراض جتایا تھا۔ ان کی پریشانی اس بات کو لیکر تھی کہ ریاستیں اپنے کوٹے کو کیسے نافذ کر پائیں گی۔ مگر چاہے سرکاری اداروں میں ریزرویشن کا سوال ہو یا پرائیویٹ کالجوں میں مینجمنٹ کے کوٹے کا ،یہ سوال سلجھا لئے گئے تھے۔ اس طرح این ای ٹی نے ساری رکاوٹیں ختم کردی تھیں جنہیں اس کی ایک عام مشکل کہا جاتا تھا۔سال کے لئے مشترکہ ایڈمیشن ٹیسٹ منعقد ہوچکا تھا۔ایسے مقام پر پہنچ کر اس پر روک لگانا مایوس کن ہے۔ اس فیصلے سے بہت سے سوال بے جواب رہ گئے ہیں جن کی طرف سے فیصلے پر نااتفاقی ظاہر کرنے والے جسٹس اے ۔ آر۔دوے نے اشارہ دیا ہے کہ نیٹ سسٹم ختم ہونے پر مختلف کالجوں میں داخلے سے متعلق داخلہ امتحانات کے سبب غریب اور ٹیلنٹڈ طلبہ کو جسمانی اور اقتصادی مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ جسٹس التمش کبیر اور ان کے ساتھ اتفاق جتانے والے جسٹس وکرم جیت سین نے اپنے فیصلے میں اس کو منسوخ کردیا ہے لیکن اس بات پر روشنی نہیں ڈالی کہ آخر چار برس پہلے اسی عدالت کی ایک دو نفری بنچ نے سبھی میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلے کا یکساں نظام رائج کرنے کا قدم کیوں اٹھایا تھا؟ این سی آئی کا جواز تو اپنی جگہ پر ہے لیکن پرانا سسٹم لاگو ہونے کے بعد دیش بھر کے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں اب 50 سے زیادہ ایڈمیشن امتحانات میں بیٹھنا ہوگا ،جس میں وہ ہی طالبعلم شامل ہوسکیں گے جن کے پاس پیسہ اور وسائل ہوں گے۔ اس راستے سے کن کن کو داخلہ ملے گا یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس سال دیش کے 271 میڈیکل ڈینٹل کالجوں کے 30 ہزار گریجویٹ اور 11 ہزار پوسٹ گریجویٹ سیٹوں کے لئے ہوئے امتحان میں 7 لاکھ سے زیادہ لڑکے بیٹھے تھے۔ شکر ہے کے عدالت نے اس امتحان کو منسوخ نہیں کیا۔ پورا امکان ہے کے مرکزی سرکار اوروزارت صحت اس فیصلے کے خلاف نظرثانی عرضی کی مانگ کو لیکر سپریم کورٹ پہنچیں۔ بنیادی اصول ہے کہ انصاف صرف ہونا نہیں بلکہ انصاف ہوتا دکھائی بھی دینا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!