ایک بار پھر اٹھا تہاڑ جیل میں سکیورٹی کا معاملہ!

اگر دیش کی راجدھانی میں بدمعاشوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں تو دیش کے دیگر شہروں میں کیا حال ہوگا، اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ دہلی کے ایک بزنس مین اور اس کا خاندان کافی عرصے سے دہشت کے سائے میں جینے کومجبور ہے۔ قتل کے معاملے میں تہاڑ جیل میں بندایک قیدی بزنس مین پر منتھلی دینے کا دباؤ بنا رہا ہے اور مانگ پوری نہ ہونے پر سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے سنگم وہار کے باشندے بجندر سنگھ اپنی ماں، بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کا کیبل کا کاروبار ہے۔ کچھ سال پہلے بجندر نے قتل کے معامل میں شامل چندرپرکاش کو جیل پہنچانے میں اہم رول نبھایا تھا یہ ہی بات اس قیدی کو ناگوار گزری۔ اس کے بعد شروع ہوا تہاڑ جیل سے بزنس مین کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ۔ بجندر کا الزام ہے کے چندر پرکاش تہاڑ جیل سے ہی فون کرکے اس پر منتھلی دینے کا مسلسل دباؤ بنائے ہوئے ہے۔ بار بار مل رہی دھمکیوں سے پریشان شخص نے ملزم سے موبائل پر ہوئی بات چیت کی ریکارڈنگ بھی کر رکھی ہے۔ اس کے پاس دھمکی بھرے ٹیلی فون 2009ء سے آرہے ہیں۔ دو بار جان لیوا حملہ بھی ہوچکا ہے۔ حالانکہ بجندر سنگھ سبھی پولیس افسروں سے مل چکا ہے لیکن ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ بیشک ایشیا کی سب سے بڑی تہاڑ ماڈل جیل میں شمار ہوتی ہے لیکن انتظامی طورپر یہاں حالات بیحد تشویش کا باعث ہیں۔ تہاڑ جیل میں خودکشی، مارپیٹ اور چاقو ماری ،منشیات کی اسمگلنگ، موبائل فون کی برآمدگی نے سکیورٹی سسٹم پر سوالیہ نشان کھڑے کردئے ہیں۔ تہاڑ میں صلاحیت سے زیادہ دو گنا قیدی ہیں اور ضرورت سے کم ایک تہائی جیل ملازم ہیں۔ وہ تنخواہ دیرسے ملنے اور اپنی ترقی کو لیکر لاچار دکھائی پڑتے ہیں۔ ملازم ہرسال نوکری چھوڑکر جارہے ہیں۔ پچھلے کچھ ماہ کے اندر تہاڑ جیل میں 2 قیدیوں نے خودکشی کرلی اور ایک قیدی کو دوسرے قیدی نے مارکر موت کی نیند سلا دیا۔ چھوٹے موٹے واقعات تو اس جیل میں عام ہیں۔ جیل میں قیدیوں کی تعداد 6250 ہونی چاہئے لیکن یہاں 12113 قیدی رکھے ہوئے ہیں۔ جیل مینول کے حساب سے یہاں پر 6250 قیدیوں کے لئے 1300 جیل سکیورٹی گارڈ منظور ہیں۔قاعدے کے مطابق یہ منظور عہدوں سے 10 فیصدی زیادہ بھرتی ہونی چاہئے لیکن ہنگامی حالات میں ملازمین کی کمی محسوس نہ ہو لیکن اس میں تقریباً900 سکیورٹی جوان تعینات ہیں۔ موجودہ قیدیوں کی تعداد کے حساب سے 3 ہزار جوانوں کو تعینات کیا جانا چاہئے۔ اس سال 50 جیل کرمچاری نوکری چھوڑ چکے ہیں۔ 2007ء بیج کے کل 18 معاون سپرنٹنڈنٹ میں سے12 نے نوکری چھوڑدی ہے۔ تنخواہ میں دیری اور ترقی میں امتیاز کو لیکر تہاڑ جیل کے ملازمین میں کامی کشیدگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ چوتھے تنخواہ کمیشن کی رپورٹ سے پہلے تہاڑ جیل کے سکیورٹی جوان اور پولیس کی تنخواہ یکساں ہوا کرتی تھی لیکن پانچویں اور چھٹے ویج کمیشن میں پولیس کی تنخواہ بڑھادی گئی اور جیل کرمچاریوں کی جوں کی توں رہ گئی۔ تہاڑ جیل کی سابق انسپکٹرجنرل کرن بیدی ، اجے کمار، بی کے گپتا، نیرج کمار سبھی نے اپنی اپنی میعاد میں سفارش بنا کر پیسہ بڑھانے کیلئے محکمہ داخلہ سے سفارش کی ہے لیکن ابھی تک ان پر کچھ نہیں ہوا۔ تہاڑ جیل میں سکیورٹی کا معاملہ یوں ہی چلتا رہے گا جب تک اس معاملے کے پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور نہیں ہوتاایسی خبریں آتی رہیں گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!