لکشمی کی مہم رنگ لائی: تیزاب کی کھلی فروخت پر پابندی

کچھ دن پہلے مجھے فیس بک پر ایک انتہائی دکھی والد کی ایک پٹیشن آئی تھی۔ جس میں انہوں نے اپنی بیٹی کے منہ پر کسی بدمعاش کے ذریعے تیزاب پھینکنے کی داستان بیان کی تھی۔ اور انہوں نے مجھے ان کی پٹیشن پر دستخط کرنے کو کہا تھا کہ تیزاب کی یوں کھلی بکری پر پابندی لگنی چاہئے۔ میں نے اس پٹیشن پر نہ صرف دستخط کردئے بلکہ اپنے درجنوں دوستوں سے بھی فیس بک پر اس پٹیشن پر دستخط کرنے کوکہا۔ لڑکی کے والد کی جیت ہوئی۔ ہم سب کی جیت ہوئی۔ اس پٹیشن پر ہزاروں دستخط ہوئے اور وہ بدقسمت لڑکی کے والد نے صدر کو بھیج دی اور صدر محترم نے سرکار کو اس پٹیشن اور درجنوں ایسے معاملوں کے سبب سپریم کورٹ نے جمعرات کو اپنا تاریخی فیصلہ سنایا۔ اس نے اپنے انترم حکم میں تیزاب بیچنے اور خریدنے سے وابستہ سبھی قاعدے قوانین جمعرات سے ہی لاگو کردئے۔ عورتوں پر تیزابی حملے کی بڑھتی واردات کے پیش نظر واضح اور سخت قانون بنانے کی مانگ کئی بار پہلے بھی ہوچکی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی سرکار کو اس بارے میں ہدایت دی تھی۔ مگر ٹال مٹول کا عالم یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ایک بار پھر سرکارکو پھٹکارلگاتے ہوئے یہ کہنا پڑا کہ تیزاب کی کھلی فروخت روکنے کے معاملے میں کبھی بھی سنجیدہ نہیں ہے۔ دیش بھر میں روزانہ لڑکیوں پر تیزابی حملے ہورہے ہیں اور وہ مررہی ہیں۔ مگر مرکزی حکومت نے اب اس سلسلے میں کارگر قدم نہیں اٹھایا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا اگر بغیر شناختی کارڈ دیکھنے تیزاب بکا تو زہر ایکٹ 1919ء کے تحت مقدمہ چلے گا، سزا ہوگی۔ اب کھلے بازار میں وہ ہی تیزاب بیچا جائے گا جو جسم پر بے اثر ہو۔ دراصل ہو یہ رہا کہ لیباریٹریوں اور صنعتی کارخانوں میں کیمیکل کے طورپر استعمال ہونے والا تیزاب کافی عرصے سے عورتوں پر حملے کا ہتھیار بن چکا ہے۔ کسی لڑکی یا عورت کے چہرے کوبگاڑنے اور اس کی زندگی برباد ہوجائے اسی منشا سے اس پر تیزاب پھینکا جاتا ہے ۔ اس لحاظ سے کسی عورت پرتیزاب ڈالنا آبروریزی جیسا سنگین جرم ہے اور اسے روکنے کے لئے سخت قانون بنانا ضروری ہے۔ آسانی سے دستیابی کے چلتے تیزاب پی کر خودکشی کرنے کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔ مگر اتنے خطرناک اثر کے باوجود اس کی پیداوار اور تقسیم پر نگرانی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ جسٹس آئی ایم لودھا اور جسٹس فقیر محمد کی بنچ نے ریاستی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ تیزابی حملوں کو غیر ضمانتی جرم بنائیں۔ کورٹ نے سرکاروں کو تین مہینے کے اندر اس بارے میں واضح پالیسی لانے کی ہدایت دی۔ عرضی پر اگلی سماعت چار مہینے بعد ہونی ہے۔ جب ریاستی سرکاریں تیزاب پر کنٹرول اور متاثرین کی بازآبادکاری کو لیکر پوری پالیسی لاکر کورٹ میں رکھیں گی۔ تیزابی حملے کی شکار لکشمی کی 2006ء میں دائر عرضی پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ انترم حکم ایک ہفتے کے اندر سبھی ریاستوں تک پہنچایا جائے جہاں ہمیں خوشی ہے کہ ہم سب کی مہم رنگ لائی ہے اور سرکاریں اب تیزاب کی کھلی بکری پر روک لگانے کی غرض سے قدم اٹھائیں گی وہیں یہ بھی کہنا چاہیں گے کے بہت کچھ ان پابندیوں کی تعمیل پر منحصرہوگا۔ دیکھنا یہ ہوگاکہ سرکاریں کتنی ایمانداری سے پابندیا ں نافذ کرتی ہیں اور سرکاری مشینری کتنے موثر ڈھنگ سے پابندیوں پر عمل کراتی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!