ان علیحدگی پسندوں کا مقصد صاف ہے امرناتھ یاترا میں رکاوٹ ڈالنا!
کشمیر میں حالات پھر سے بگاڑنے کی کوشش ہورہی ہے۔ ایک چھوٹے سے واقعہ کا بہانہ بنا کر حالات کو 1990ء کی دہائی میں پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔معمولی بات پر ہوئے جھگڑے کے بعد رام بن کے گل علاقے میں بی ایس ایف پر مشتعل بھیڑ نے حملہ بول دیا۔ اس پر قابو پانے کے لئے سکیورٹی فورسز نے فائرننگ کی جس میں کم سے کم 4 لوگوں کی موت ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ بی ایس ایف نے اپنی حفاظت میں مجبوری میں اٹھایاگیا قدم بتایا۔ پورے واقعے پر اپنا پہلو رکھتے ہوئے بی ایس ایف کا کہنا ہے کہ سینکڑوں لوگوں کی بھیڑ جب بے قابو ہوکر کیمپ میں گھسنے لگی تب اس کے پاس طاقت کا استعمال کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا۔ سمجھانے اور معاملے کو خاموش کرنے کی سبھی کوششیں ناکام ہونے کے بعد ہی مشتعل بھیڑ کو کنٹرول کرنے کے لئے اس کے جوانوں کو مجبوری میں گولیاں چلانی پڑیں۔ بیان میں بی ایس ایف نے واقعہ کے اسباب کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ بتایا کہ جمعرات کی صبح سویرے تقریباً5 بجے بی ایس ایف کی ایک گشتی ٹیم نے 25 سالہ محمد لطیف کو روکا اور اس سے شناختی کارڈ دکھانے کے لئے کہا۔ لطیف واپس چلاگیا اور اس نے15-20 لوگوں کو اکٹھا کر گشتی ٹیم کو روک لیا۔اس دوران انہوں نے لڑکوں نے گشتی ٹیم کے ممبروں پربدتمیزی کرنے کا الزام لگایا ۔ اسی درمیان مقامی مسجد سے اعلان کرکے گشتی ٹیم پرالزام لگایا کے قرآن شریف کی بے حرمتی کی گئی۔ بس پھر کیا تھا مقامی لوگوں نے بی ایس ایف لوگوں کو گھیر کر پتھر بازی شروع کردی۔ جب بھیڑ نے کیمپ کے اندر گھسنے کی کوشش کی تو بی ایس ایف نے اپنی حفاظت کے لئے فائرننگ کی جس میں6 لوگوں کی موت ہوگئی۔ اس واقعے سے کشمیر کٹرپنتھی علیحدگی پسندوں کو حالات خراب کرنے کا موقعہ مل گیا۔ یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ واقعہ سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے۔ کٹرپسند لیڈر علی شاہ گیلانی نے اپنے ہڑتال کے کلینڈرکو تھیلے سے باہر نکالنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی۔ دراصل وہ اپنے حریف علیحدگی پسند لیڈر میر واعظ عمر فاروق سے کچھ قدم آگے نکل پڑے اور اپنا الگ پرچم لہرانا چاہتے ہیں۔یہ ہی وجہ تھی کہ دیگر علیحدگی پسندوں نے وادی میں تین دن کی ہڑتال اور احتجاجی مظاہروں کا اعلان کرتے ہوئے کہاسکیورٹی فورسز کشمیریوں کو ختم کرنا چاہتی ہے اور ان کے اعلان کا خاتمہ یہیں نہیں ہوتا بلکہ کہتے ہیں کہ تین دنوں میں ہڑتال اور مظاہروں کے بعد ایتوار کو آگے کی حکمت عملی بتائی جائے گی۔ ایسے وقت میں جب کشمیر میں سیاحوں کی آمد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور امرناتھ یاترا کے سبب عام کشمیری اپنی روزی روٹی پیدا کرنے میں لگا ہوا ہے، سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں کئی سالوں کے بعد ان موتوں کو بھنانے کی علیحدگی پسندکوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ حقیقت میں کشمیر کو 1990ء کی دہائی میں اس واقعے نے پہنچادیا ہے۔ ان علیحدگی پسندوں اور کٹرپسندوں کا ایک پوشیدہ مقصد نظر آرہا ہے یہ ہے امرناتھ یاترا میں رکاوٹ ڈالنا۔ اس مظاہرے اور واقعے کے پیچھے کٹرپسندوں کی سازش کی بو آرہی ہے۔ یہ جان بوجھ کر فائرننگ پر دہشت پھیلا رہے ہیں تاکہ کسی طرح امرناتھ یاترا میں رکاوٹ کھڑی ہوسکے۔ ہر برس کروڑوں ہندوؤں کی شردھا کا مرکز برفانی بابا کے درشن کے لئے یاترا شروع ہوتی ہے۔ ہر برس دہشت گرد اور علیحدگی پسند طاقتیں یاترا میں رکاوٹ ڈالنے کی ناکام کوشش کرتی رہتی ہیں۔ آتنک وادیوں کے ذریعے ہندوؤں کی عقیدت سے کھلواڑ کا یہ سلسلہ 1993ء سے شروع ہوا ہے۔ 1992ء میں بابری مسجد مسماری کے بعد یاترا روکنے کے لئے حملہ کیا گیاتھا، جس میں تین لوگ مارے گئے تھے۔ اس کے بعد1994ء میں پھر سے حرکت الانصار نے یاترا پر حملہ کیا جس میں2 شردھالوؤں کی موت ہوگئی تھی۔ اسی طرح 1995ء میں اسی تنظیم نے پھر حملہ کیا لیکن اس بار وہ کسی کی جان نہیں لے پائے۔ سال2000ء میں آتنکیوں نے پھر بڑا حملہ کر پہلگام میں 32 شردھالوؤں سمیت35 لوگوں کو موت کی نیندسلا دیا تھا۔ 2001ء میں 3 پولیس افسران سمیت 12 شردھالوؤں کو نشانہ بنایاگیا۔ 2002 ء میں بھی الگ الگ حملوں میں کل 10 شردھالو مارے گئے تھے۔ دہشت گردوں کے ذریعے مسلسل شرمناک وارداتوں کے بعد بھی ہندوؤں کا حوصلہ امرناتھ یاترا کے لئے بڑھ رہا ہے اور ہر برس امرناتھ یاترا کے لئے رجسٹریشن کرانے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ ہر ہر مہادیو ،برفانی بابا کی جے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں