ہندو دھارمک ا ستھلوں کے بعد اب بودھ نگری میں دھماکے!

دنیا کی تاریخی وراثتوں میں شمار بودھ گیا کامہا بودھی مندرایتوار کی صبح سلسلہ وار دھماکوں سے دہل گیا۔ بیشک ان میں کوئی بڑا نقصان نہ ہوا ہو لیکن اس حملے کا پیغام زیادہ حیرت زدہ کرنے والا ہے۔ سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ دہلی پولیس اور آئی بی نے بہار سرکار کو بھیجی گئی رپورٹ میں کہا تھا کہ انڈین مجاہدین کے آتنکی بودھ گیا میں مہا بودھی مندر کو نشانہ بنانے کے فراق میں ہے۔ اس کے باوجود نتیش سرکار اسے لیکر سنجیدہ نہیں تھی اور پنے دھماکے کے الزام میں اکتوبر 2012ء میں دہلی پولیس کے ہتھے چڑھے آئی ایم کے آتنکیوں نے بودھ گیا میں دھماکے کی سازش کی جانکاری دی تھی۔ گرفتار دہشت گردوں نے دو ہفتے تک مہا بودھی مندر کی ٹہو لی تھی۔ ان سب کے باوجود اتنے اہم اور عالمی سطح کے پوجا استھل کی حفاظت کے پختہ انتظامات نہیں ہوسکے۔ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے مانا کے یہ سکیورٹی میں بڑی چوک ہے۔ بم دھماکوں میں تاریخی مہابودھی مندر اور اس کے آس پاس کوئی نقصان نہیں ہوا۔ بھگوان بودھ کی 80 فٹ اونچی پرتیما بھی پوری طرح محفوظ ہے۔ مہابودھی مندر بودھوں کی عقیدت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔566 اور 486ء کے درمیان بودھ پیڑ کے نیچے ہی بھگوان بودھ کو گیان پراپت ہوا تھا۔ مندر کی تعمیر 260ء قبل مسیح سمراٹ اشوک نے کرائی تھی۔ جون 2002ء میں یونیسکو کی طرف سے اسے عالمی وراثت کا درجہ ملا۔ اسے اتفاق ہی کہئے یا پھر مہا آتما بودھ کی گیان استھلی کی علامت ، جس وقت مہابودھی مندر میں دھماکے ہوئے اس وقت مندر کمپلیکس میں کافی کم لوگ تھے۔ صبح ساڑھے پانچ بجے یومیہ پوجا کی تیاری چل رہی تھی اس حساب سے آتنکیوں نے مندر کمپلیکس میں اپنی پہنچ بنا رکھی تھی اس سے صاف ہے کے اگر مندر کے اندر بھیڑ ہوتی تو تباہی کا منظر کچھ اور ہی ہوتا۔ چار دھماکے مندر کمپلیکس کے چاروں کونوں پر ہوئے۔ ایک طرح سے پورا کمپلیکس آتنکیوں کے قبضے میں تھا۔ مندر کے ٹھیک پیچھے بھگوان بودھ کے چرن استھل ہے اور یہیں بودک ورکش کی پوجا ہوتی ہے۔ یہاں پہنچنے سے پہلے سکیورٹی ملازمین کی اجازت لینی ہوتی ہے۔ اتنی صبح کوئی شخص بودھ بھکشو کا لباس پہنے بغیر آسانی سے نہیںآسکتا کیونکہ یہ سیاحوں کا وقت نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے جس نے بم لگایا اس نے اپنا لباس کچھ اس طرح سے پہنا ہوا تھا کے کسی کو شک نہ ہو۔ مندر کمپلیکس میں داخل ہونے والے لوگوں پر نظر رکھنے کے لئے حالانکہ10 کیمرے لگے ہوئے تھے لیکن سی سی ٹی وی کے ناکارہ ہونے کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کے ان کے فوٹیج دو دنوں سے زیادہ وقت تک نہیں رکھے جاسکتے۔ یہ حملہ کس نے کروایا اور کیوں کروایا اس کا جواب فی الحال دینا مشکل ہے لیکن اندازہ لگا سکتے ہیں کے بودھ گیا میں ہوئے سلسلہ وار دھماکوں کی تہہ تک پہنچنے میں جانچ ایجنسیوں کو وقت لگے گا لیکن پوری دنیا میں بودھ مذہب کے اس مقدس پوجا استھل پر اس حملے نے ضرور ثابت کردیا ہے کہ ایک بار پھر ہمارا سکیورٹی سسٹم فیل ہوگیا ہے۔ میانمار میں اقلیتی روہنگیا مسلمانوں اور اکثریتی بودھوں کے درمیان ٹکراؤ کو لیکر بھارت میں گذشتہ ایک برس سے اچانک احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جو خطرے کی گھنٹی بجا چکا تھا۔ گذشتہ1 سال کے دوران ممبئی سے لیکر جمشید پور دہلی تک مظاہرین نے بھی تشویشات پیدا کردی ہیں۔ اس کی حکمت عملی پہلے سے ہی طے ہوسکتی ہے۔ بودھ گیا سے جمشید پور کی دوری کچھ گھنٹوں کی ہے جہاں 2012ء میں روہنگیا مسلمانوں کی حمایت میں خونی مظاہرے ہوئے تھے ۔ اس میں تین پولیس والے زخمی ہوگئے تھے۔ ان دھماکوں کے بعد ابتدائی جانچ میں شک کی سوئی انڈین مجاہدین کی دربھنگہ موڈیول پرکی جارہی ہے کیونکہ حیدر آباد دھماکے میں بھی اسی کا ہاتھ تھا۔ 
غور طلب ہے کہ دربھگنہ موڈیول انڈین مجاہدین کا سلیپر سیل کہا جاتا ہے۔ بیرونی ممالک سے آنے والے شردھالوؤں کی پریشانی دراصل سرکار کی پریشانی ہے۔ ستمبر میں بڑی تعداد میں جاپان، تھائی لینڈ، میانمار سے آنے والے شردھالوؤں کی آمد وجہ ہے اس لئے سرکار نے مندر کی سکیورٹی بہت جلد سی آر پی ایف اور سی آئی ایس ایف کو سونپنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک پریشانی سرکار کی خاص طور سے بودھ دھرم گورو دلائی لامہ اور ہماچل کے دھرمشالہ میں واقع منڈکی کی حفاظت کو لیکر ہے۔ دکھ سے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ممبئی حملے کے بعد دہشت گردی کے خلاف لڑائی کو لیکر بنی سنجیدگی پچھلے ایک سال سے دکھائی نہیں دیتی۔ رہی سہی کثر اس یوپی اے سرکار کی ووٹ بینک پالیسی نے پوری کردی ہے۔ سرکارنے آئی بی اور سی بی آئی میں ٹکراؤ کراکر آئی بی افسروں کا حوصلہ گرادیا ہے۔ خفیہ بیورو آئی بی کے اسپیشل ڈائریکٹر راجندر کمارکے خلاف سی بی آئی کی کارروائی کو افسوسناک بتاتے ہوئے ریٹائرمنٹ سے دو دن پہلے ہی داخلہ سکریٹری آر کے سنگھ نے کہا تھا کہ ایسے میں دیش کی سکیورٹی بھگوان بھروسے ہے۔ ان کا اندیشہ ایک ہفتے میں ہی ثابت ہوگیا۔ سکیورٹی ایجنسیوں سے بے خوف انڈین مجاہدین کے آتنکی ایک کے بعد ایک حملہ کررہے ہیں۔ جس وقت عشرت انکاؤنٹر کے معاملے میں نتیش و مرکزی سرکار کے لوگ نریندر مودی اور وہاں کے افسروں اور آئی بی افسروں پر الزام تراشی میں مشغول تھے اسی وقت آتنکی مہابودھی مندر پر حملے کی سازش انجام دینے میں لگے تھے۔ یہ بات سیاسی پارٹیوں کے ذہن میں کیوں نہیںآتی کے دیش کی ایکتا اور سالمیت اور عزت کا معاملہ ووٹوں کی سیاست سے بڑھ کر ہے۔ مسلم ووٹروں کے چکر میں سیکولرازم کے نام پر کچھ پارٹیاں جس طرح کا گھناؤنا کھیل کھیل رہی ہیں وہ دیش کے وجود اور اس کی سرداری کے لئے سنگین چنوتی ہے۔ کچھ سالوں سے بھارت کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اکشردھام، رگھوناتھ مندر، کاشی کا سنکٹ موچک مندر، ایودھیا کا پوتر استھل کے بعد اب بودھ گیا ہے۔ 
یہ سنگین تشویش کی بات ہے کہ آج جنتا کے بعدسکیورٹی فورسیز کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے اور اب کلچر کی وراثت مذہبی مقامات کو بھی اپنے نشانے پر لیا ہے۔ اس چنوتی کا جواب ہر طرح کی سیاست سے بالاتر ہوکر پوری سختی سے مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ حملے کی سچائی تو جانچ کے بعد سامنے آئے گی لیکن زیادہ ضروری ہے کہ ہمارے پالیسی ساز اسے ایک سبق کی طرح لیتے ہوئے سکیورٹی نظام پر خاص طور پر توجہ دیں اور آتنک واد سے لڑنے کی قوت ارادی دکھائیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟