تحریر چوک نے کرائی دوسری کرانتی!

مصر کا تحریر چوک خاموش ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ابھی پہلی کرانتی کا خمار ٹوٹا نہیں تھا کہ تحریرچوک پر د وسرا انقلاب برپا ہوگیا جب مصر کی فوج نے محمد مرسی کو صدارت سے ہٹانے کااعلان کیا تو قاہرہ کے تحریر چوک پر بھاری تعداد میں لوگ جمع ہوگئے اور خوشیاں منائیں۔ دیش کے دوسرے حصوں میں بھی بہت سے لوگوں نے جشن منایا۔ ایک سال پہلے مصر میں انہیں جمہوری لہر میں ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی نہ صرف حکمرانی چلی گئی بلکہ وہ جیل میں اپنی زندگی کا باقی حصہ گزار رہے ہیں۔ تحریر چوک پر تب بھی ایسا ہی عوامی سیلاب امڑا تھا جس کے ساتھ فوج کی طاقت جڑتے ہی مصر تاناشاہی کے چنگل سے آزادہوگیا۔ اس کے بعد پہلی بار برسوں بعد جمہوری آئین سے دیش کے صدارتی چناؤ میں محمد مرسی نے اقتدار سنبھالا تھا۔ مصر کی 80 سال کی کٹر پسند پارٹی مسلم برادر ہڈ سے مرسی کے سامنے ویسے تو چنوتیوں کا پہاڑتھا لیکن سب سے ضروری چنوتی تھی دیش کی بدحال معیشت کو فوراً پٹری پرلانا۔ ایک قابل قبول آئین بھی ترجیح تھی۔ دیش کے مختلف نظریات کو ساتھ لیکر چلانے کے لئے ایک قومی پلیٹ فارم تیار کرنا تھا۔ مرسی سے امید تھی کہ وہ قومی ایجنڈے پر مسلم برادر ہڈ کا کٹر پسند ایجنڈا حاوی نہیں ہونے دیں گے۔ مرسی کو صدر کے طور پر ایک سال بھی نہیں گذرا تھا کے ان کے خلاف بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر اتر آئے اور وسیع پیمانے پر ناراضگی تھی۔یہ قوت ارادی مرسی کے اقتدار کیلئے چنوتی بھی تھا اور سوال بھی۔اس لئے انہیں ہٹانے کے لئے فوجی کارروائی پر دنیا بھر میں ویسے ہی سخت ردعمل نہیں ہوا جیسا تختہ پلٹ کے بعد عام طور پر ہوتا ہے۔ لیکن فوجی مداخلت کولیکر تمام اندیشات ابھی بھی برقرار ہیں۔ 
کیا مرسی کو اس طرح ہٹانے کے پیچھے وہاں کے لوگوں کا اعتماد کھونا یا فوج نے اقتدار پر اپنی بالادستی قائم کرنے کے لئے عوامی ناراضگی کی دلیل کابہانا بنا لیا؟ یہی فوج تھی جس نے تین دہائی تک حسنی مبارک کی تانا شاہی کا ساتھ دیا تھا۔ جب فوج کو لگا کے پانی سر سے اوپر آچکا ہے تب جاکر اس نے مبارک سے کنارہ کیا۔ 9 کروڑ کی آبادی والے مصر میں مہنگائی اور تیل کی قلت نے جینا حرام کردیا۔ غیر ملکی کرنسی ذخیرے بھی خالی ہوگئے اور دیش کی کرنسی کی قیمت بھی مسلسل گرتی جارہی ہے۔ بجلی کٹوتی سے گھروں میں اندھیرا ہے تو لوگوں کو روزمرہ کی ضروری چیزوں کے لئے بھٹکنا پڑ رہا ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی فوج دیش کو آنے والے وقت میں پریشانیاں کھڑی کررہی ہے۔ مرسی یہ بھی بھول گئے کے ایک سال پہلے انہوں نے انہی وعدوں کو دیش کی تقدیر کہا تھا۔ مصر اور مشرقی وسطیٰ کے لئے ایک پائیدارحکومت اور امن کا ماحول انتہائی ضروری ہے تاکہ اس کی اقتصادی پریشانیاں دور ہوسکیں اور خطے میں پہلے سے ہی عدم استحکام کی صورتحال اور زیادہ نہ ہوجائے۔ مرسی کے زوال کا اثر کئی پڑوسی ملکوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔ اس اندیشے سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کے مسلم برادر ہڈ چین سے اب بیٹھے گا۔ کہیں مصر میں خانہ جنگی نہ چھڑ جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟