یہ کیسا قدرتی آفت راحتی انتظام سامان سڑنے لگا لوگ بھوکے مرنے لگے

قدرتی آفات کے تین ہفتے گزرنے کے بعد بھی اتراکھنڈ میں راحت رسانی کا سسٹم ڈھنگ سے کام نہیں کرپایا۔ ایسا نہیں کے دیش میں مدد کرنے والوں کی کمی ہے۔مدد تو بہت آرہی ہے لیکن وہ ضرورتمند لوگوں تک نہیں پہنچ پا رہی ہے جو کافی پریشان ہیں جنہیں زندگی بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ٹرک بھر بھر کر سامان رشی کیش اور دہرہ دون پہنچ رہا ۔ کروڑوں روپے وزیر اعظم، وزیر اعلی اور مختلف ٹریجڈی فنڈ میں پہنچ رہے ہیں لیکن غذائی سامان کی صحیح تقسیم کا کوئی انتظام نہیں ہو رہا ہے اور سامان سڑنے لگا ہے۔ دوسری طرف امداد کی امیدلگائے متاثرہ لوگ فاقہ کشی کی وجہ سے مرنے پر مجبور ہیں۔ وزیر اعلی ریلیف فنڈ، چیف منسٹر ریلیف فنڈ میں پیسے کا کیا استعمال ہورہا ہے ،کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ مرکزی حکومت نے اتراکھنڈ سرکار کو 1 ہزار کروڑ روپے راحت کے لئے دستیاب کرا دئے ہیں۔ ابھی تک یہ نہیں پتہ چل سکا اس کا استعمال کس کس کام میں ہورہا ہے اور کن اسکیموں میں کیا جارہا ہے۔ اتراکھنڈ کے آفت کے شکار علاقوں میں کہیں راحت سامان پہنچ رہا ہے اور کہیں اس کا انتظار ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ اب بھی راحتی امداد سے محروم ہیں۔ ٹھیک سے دیہات کا تجزیہ نہیں کیاجاسکا اور نہ ان کی ضرورتوں کا جائزہ لیا جاسکا جنہیں ٹینٹ کی ضرورت ہے ا نہیں بسکٹ بانٹیں جارہے ہیں۔ جہاں پانی کی دقت ہے وہاں اناج بانٹا جارہا ہے۔ کئی جگہ تو انتظامیہ کا کوئی نمائندہ اب تک نہیں پہنچا۔ حال یہ ہے کہ چمولی ضلع کی نجولا وادی میں لوگ اب بھی ابلے آلو کھا کر بھوک مٹا رہے ہیں۔ رودر پریاگ ضلع میں گاؤں میں لوگ دانے دانے کو محتاج ہیں۔ لوگوں کا صبر ٹوٹ چکا ہے وہ اب گاؤں چھوڑ کر سری نگر یا دیگر مقامات پر اپنے رشتے داروں کے یہاں پناہ لینے کو مجبور ہیں۔ اتر کاشی کے قدرتی آفت سے متاثرہ تنڈا پرکھنڈ میں کئی خاندان اسکول میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ انتظامیہ یہاں راحت کے نام پر پانی کی بوتلیں اور بسکٹ پہنچا رہا ہے جسے دیہاتیوں نے لوٹا دیا۔ راحت کی تصویر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جہاں تک سڑک پہنچی ہے وہاں جاکر سب کچھ بانٹ دیا گیا باقی رام بھروسے۔ چمولی ضلع میں گوونددھار سے آگے لاب گڑھ کے لوگ جنگلوں میں دن رات گزار رہے ہیں۔ کالے بادلوں اور بارش ڈھائی سو گاؤں کے لوگوں کا خوف بڑھا رہی ہے جن کے پاس ابھی تک کوئی سرکاری مدد نہیں پہنچی اور وہ امدادی سامان کے لئے ترس رہے ہیں۔ان گاؤں کے لوگ خود اکٹھا کئے سامان سے جیسے تیسے زندگی کاٹ رہے ہیں۔ پتھورا گڑھ میں 15 ہزار لوگوں کے بھکمری کے دہانے پر پہنچنے کی خبر ہے۔ روزنامہ ہندی ہندوستان کے منجیت نیگی نے ایک سنسنی خیز رپورٹ شائع کی ہے۔ وہ 1 جولائی کو کیدارناتھ حالات کا جائزہ لینے پہنچے ۔ لمبا اور انتہائی مشکل سفر کرنے کے بعد جب وہ کیدارناتھ پہنچے تو انہوں نے کیا پایا انہی کی زبانی۔ ہم کیدارناتھ کے اوپر گاندھی سرور کے پاس پہنچے تھے کے بالکل خالی ہو چکے تھے۔ راستے میں آگے چل کر ساڑھے گیارہ بجے صبح ہم لوگ کیدارناتھ مندر پہنچے۔ ہم نے 22 جون اور 1جولائی کے درمیان مندر میں کوئی تبدیلی نہیں پائی۔ 22 جون کو ہم ہیلی کاپٹر سے کیدارناتھ پہنچے تھے۔ مندر کی ابھی تک صفائی نہیں ہوئی ہے اور باقاعدہ پوجا بھی شروع نہیں ہوئی ہے۔ پولیس انتظامیہ کی طرف سے مندر میں کوئی تعینات نہیں تھا۔ ہمیں ایک شخص ضرور ملا جس نے خود کو دہلی کی ایک تنظیم کا نمائندہ بتایا ،وہ لاشوں کو جلانے میں لگا تھا۔ ایک عورت جو خود رضاکار تھی ، ملی خود کو پیٹا کی ممبر بتا رہی تھی، مندر میں صفائی کی مشینیں لگی تھیں لیکن صفائی کا کام نہیں ہورہا تھا۔ این ڈی آر ایف کی طرف سے گرایاگیا کئی ٹن راشن برباد ہورہا تھا۔ اس راشن کو جانور کھا رہے تھے، ہم نے راشن کو بچایا اور اسی سے کھانا تیار کیا۔ ہم نے پیر کی رات وہیں گزاری۔ قدرتی آفت کے باوجود سرکاری راحت کے طور طریقے سے ہم واقف ہیں اس لئے ہم نے ’’شری دیواستھان سمیتی‘‘ نے طے کیا کے ہم بیشک تھوڑی مقدار میں پرخود غذائی سامان لے جائیں گے اور خود اپنے ہاتھوں سے ان گاؤں والوں کو بانٹیں گے جو پوری طرح سے تباہ ہوچکے ہیں۔ ہم نے چھوٹا مقصد رکھا۔ 500 کنبوں کو راحت پہنچائی۔ ہم نے 500 پیکٹ الگ الگ بنائے جس میں2 کلو آٹا، 1 کلو چاول ،1 کلو دال، 1 کلو چینی، چائے کی پتی، مسالے، نمک، موم بتی، ماچس کا بڑا پیکٹ تھا۔ ہمارے جانباز ورکر وجے شرما ،ملوندر سنگھ، پوجا بجاڑ سمیت 11 نفری ٹیم پیر کو پرتاپ بھون سے دوپہر 1 بجے روانہ ہوئی۔ رات ہری دوار میں ٹھہری ۔ جہاں سے ہمارے ساتھی شری وریندر گوئل کوشک وغیرہ سے بیٹھ کر اگلے دن کی حکمت عملی طے ہوئی۔ صبح جب چلے تو ہری دوار میں بارش ہورہی تھی لیکن رشی کیش تک پہنچتے پہنچتے کم ہوگئی۔ رشی کیش میں ہمارے قافلے کو روک لیا گیا اور سائٹ میں لگوا کر افسران نے کہا کہ آپ آگے نہیں جاسکتے لیکن جب وجے شرما اور ان کے ساتھیوں نے انہیں سمجھایا ہم میڈیا سے ہیں ،ہم جائیں گے ہمیں شوٹ بھی کرنا ہے اور وہ اس شرط پر مانیں کے پہلے آپ اپنے ٹرک کا وزن کراؤ۔وزن ساڑھے چار ٹن نکلا۔ پھر انہوں نے اس کی اجازت لینے کی رٹ لگائی۔5 لاکھ روپے اور پھر سبھی 11 نفری ٹیم کے نام پتے نوٹ کئے۔ جب ہماری ٹیم نے پوچھا کے آپ یہ کیوں کرتے ہو، تو انہوں نے بتایا کے آپ آگے جارہے ہو اور کچھ بھی ہوسکتا، آپ مر بھی سکتے ہو۔ کل کو ہمیں آپ کے خاندان والوں کو معاوضہ دینا پڑے تو کیسے دیں گے ، اس لئے یہ سب نوٹ ہورہا ہے۔ ہمارا قافلہ آگے بڑھا۔ قدرت کی مار جھیل رہے اتراکھنڈ کے سری نگر میں واقع بھگت سانا گاؤں کے لوگ تب حیران ہوئے جب ہماری ٹیم دہلی سے راحت لیکر ان کے گھروں تک پہنچی۔ الکنندا ،بھگیرتی کے ساحل پر بسیں اس گاؤں کی ٹریجڈی اتنی خوفناک تھی کے یہاں کے لوگوں کے مکان قریب دو دو منزل تک دلدل میں ڈوب چکے تھے۔ علاقے میں لوگ و مویشی زلزلے کی راحت کہاں کھو گئے ان کا ابھی تک پتہ نہیں چلا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے دیش کے کونے کونے سے راحت سامان ضرور آرہا ہے لیکن وہ کہاں جارہا ہے اس کا کچھ پتہ نہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس آفت میں اپنا سب کچھ اجڑنے کے بعد بھی بھکت سانا، شیو وہار ،نرسری روڈ، الکنندا مارگ کے لوگ راحت رسانی کے پیکٹ لینے میں ایمانداری نبھارہے تھے۔ اگر ایک پیکٹ دیا جارہا تھا وہ ایک پیکٹ ہی لیکر صبر کررہے تھے لیکن حیرانی کی بات یہ تھی کہ اس گاؤں کے لوگوں کی خبر گیری کے لئے کوئی نیتا یا سرکاری اعلی افسر نہیں آیا۔ حالانکہ برپی، کیدار کے قومی شاہراہ کے کھلنے کا کام ضرور شروع کیا جارہا ہے لیکن لوگوں کو پانی تک میسر نہیں ہوسکا۔ گاؤں کے لوگوں نے ہزاروں دعائیں شری دیو استھان سمیتی کو دیں اور راحت ٹیم کو دیں۔ ایک شخص نے روتے روتے بتایا کے پانی اور سیلاب اتنی تیزی سے آیا کے آنگن میں بندھی پانچ گائیوں کو بھی نہیں کھول سکا۔ عمارتیں 10-10 فٹ نیچے دھنس گئیں۔ کتنے لوگ مرے اس کا بھی ابھی تک پتہ نہیں چل سکا۔ میں نے یہ ساری باتیں اس لئے بیان کی ہیں کے راحت سامان یا نقد عطیہ دینا کافی نہیں۔ یہ یقینی بنائیں کے وہ امداد ان ضرورتمند لوگوں تک پہنچ سکے جو اس وقت بھکمری کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟