خطرے میں کیدارناتھ مندر کا وجود

کیدارناتھ میں ہوئی تباہی تو ایک علامت بھر ہے۔ اس کے ٹھیک 6 کلّے اوپر چورباڑی گلیشیئر بڑی تباہی کے لئے کلبلا رہا ہے۔ یہ کہنا ہے چاربار گلیشیئر کے اوپر سے ہوائی جائزہ لے چکے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ایم ۔ سی۔منگٹی کا۔ ان کا کہنا ہے چورباڑی گلیشیئر بڑا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے لیکن اتنی تباہی مچا دے گا اس کا احساس انہیں بھی نہیں تھا۔زمان�ۂ قدیم سے ہمالیہ کی گود میں واقع کیدارناتھ کے چاروں طرف خطرہ منڈرانے لگا ہے۔ مسلسل بارش اور حال ہی میں سیلابی آفت کے بعد اب پراچین مندر بھی خطرے کی زد میں ہے۔ جغرافیائی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر برسات سے پہلے مندر کے بچاؤ کے ابتدائی انتظامات نہ ہوئے تو مندر کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ گذشتہ16-17 جون کی آفت میں تو مندر بچ گیا لیکن مندر کو نقصان پہنچا۔ سیلابی آفت کے قہر سے مندر احاطہ قریب ڈھائی سے تین فٹ ملبے اور پتھروں سے ڈھکا ہوا ہے جبکہ پچھلے حصے میں وسیع بولڈر گھر گئے ہیں۔ مندر کے آگے حصے سے پتھر بھی نکل رہے ہیں۔ محکمہ آثار قدیمہ اور جغرافیائی سائنس سے وابستہ ٹیم مندر کا معائنہ کرنے نہیں جا پائی ہے۔ اگر چہ پراچین مندر کے تئیں اس طرح کا ٹال مٹول والا رویہ رہا تو برسات کے دوران مندر کو نقصان ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اتراکھنڈ میں خوفناک آفت کے بعد کانگریس صدر سونیا گاندھی نے جب100 ٹرک راحت سامان دہلی سے روانہ کیا تو اس کے ساتھ ایسا کوئی فرمان نہیں چسپاں کیا گیا تھا کے یہ راحت کا سامان صرف انہی ہی دیا جائے جو پارٹی کے ووٹر ہیں۔ اب اسے رودرپریاگ کے کانگریسیوں کی دوراندیشی ہی کہیں گے کے انہیں بغیر اعلی کمان کے احکامات کے راحت سامان وہاں بٹوادیا جہاں آفت نہیں آئی تھی۔ ایک طرف ہزاروں لوگ امداد کے لئے ترس رہے ہیں تو دوسری طرف پردیش کانگریسی اپنی ووٹ بینک کی سیاست سے باز نہیں آرہے ہیں۔ یہ بھی رپورٹ آئی ہے کہ کانگریسی لیڈروں نے قدرتی آفت سے متاثرہ علاقوں میں راحت بھیجنے کے بجائے ہیڈ کوارٹر بنائے گئے گوداموں میں رکھا اور یہ بھی خبر آئی ہے کہ راحت کے نام پر دیا جارہا سامان سڑگیا ہے۔ تلا گاؤں کی پردھان وشیشوری دیوی جمعہ کو راہل گاندھی کی یووا برگیڈ کے ذریعے دیا گیا راحت سامان کی 30-40 پیٹی لے کر اپنے گاؤں میں بانٹنے کے لئے کھولی تو اناج سے بدبو آرہی تھی ،وہ سڑ چکا تھا۔ لکسر کے ایک بڑے آڑتی کے یہاں انتظامیہ نے تقریباً1 ہزار بورے راشن کے برآمد کئے ہیں۔ پکڑے گئے بوروں میں کافی مقدار میں پمفلٹ یا پارٹی کی مہر لگی تھی۔ راحت سامان کی آڑتی کھلی سیل کررہے ہیں۔ لوک بھکمری سے مر رہے ہیں یہ لاشوں پر بھی سیاست کرنے والے اپنی جیبیں بھرنے میں لگے ہیں۔ لکسر حلقے میں تحصیل کی رہنمائی میں انتظامیہ کی ٹیم نے چھاپہ مارا اور چار بار مقامی بسپا لیڈر کی شوبھم ٹریننگ کمپنی سے راحت کوٹے کا 1 ہزار سے زیادہ غذائی سامان برآمد ہوا ہے۔ یہ سامان متاثرہ علاقوں میں تقسیم کے لئے گیا تھا لیکن راشن دوکانداروں کو جون جولائی کے کوٹے کی شکل میں دے دیا گیا۔ ایک تکلیف دہ خبر یہ بھی ہے کہ اتراکھنڈ کے آفت زدہ ضلع کا دورہ کر لوٹی خاتون و اطفال ترقی وزارت کی ٹیم نے ریاستی سرکار سے لاپتہ بچوں کی اصلی تعداد پتہ لگانے کوکہا ہے۔ ٹیم میں شامل چیئرپرسن کشل سنگھ نے وزیر اعلی سے مل کر بے سہارا بچوں کی دیکھ بھال اور ہزاروں کی تعداد میں غائب بچوں کے بارے میں معلومات اکھٹی کرنے کو کہا ہے۔ ریاستی سرکار نے پہلے صرف1 بچے کے یتیم ہونے کی بات بتائی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ اندازے کے مطابق اتراکھنڈ میں 1200 سے زیادہ بچوں کے غائب ہونے کا اندازہ ہے۔ صحیح تعداد تو شاید ہی کبھی پتہ چلے۔ کیدار وادی میں قدرتی آفت میں مارے گئے لوگوں کو نکالنے میں دیر ہوگئی۔ وہاں اب بھی لاشیں نہیں ان کے ڈھانچے مل پائیں گے۔ ماہرین کا دعوی ہے کہ کیدار وادی میں پڑی لاشیں مہینے بھر بعدیا تو سڑ کر جانوروں کا لقمہ بن گئی ہوں گی یا پھر مٹی میں مل گئی ہوں گی، ایسے میں ان کی پہچان کرنا مشکل ہوجائے گا۔ جی ایس آئی کے سائنسداں پہلے ہی صاف کرچکے ہیں کہ تحفظ اور ماحول کے حساب سے کیدارناتھ علاقہ بیحد حساس ترین ہے لہٰذا مذہبی استھا کے ساتھ ساتھ سائنسی نظریئے سے بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ تجویز ہے کہ ہیلی کاپٹروں سے فوراً وہاں جی سی بی مشینیں بھجواکر مندر کے 60سے70 میٹر پیچھے بڑی دیوار بنائی جائے۔ جی سی بی اور دیگرمشینیں وہاں پہنچانا مشکل نہیں ہے مشینوں کو کھول کر انہیں وہاں پھر سے جوڑا جاسکتا ہے اور فوج اس طرح کے کام کو اچھی طرح سے جانتی ہے۔ وہاں دیوار بنوانے کے کام میں آئی ٹی بی پی ، بی آر او کے جوانوں کی مدد لی جاسکتی ہے۔ یہ دیش کی عقیدت سے جڑا سوال ہے ایسے میں کیدارناتھ مندر کے وجودکو آئیں چنوتیوں کو سمجھتے ہوئے اس مندر کو بچانا اتراکھنڈ اور مرکزی سرکار کی بڑی ترجیح ہونی چاہئے۔ کیدارناتھ مندر کے سائڈ میں شری کرشن کے ساتھ ہی پانچ پانڈوؤں کی بیش قیمتی مورتیاں ہیں۔ ماتا کنتی، پاروتی گنیش اور ویر بھدر ،لکشمی نارائن وغیرہ کی مورتیاں بھی ہیں جو اس وقت بغیر حفاظت کے بالکل غیر محفوظ ہیں۔ اس لئے بلاتاخیر مندر کی حفاظت کا انتظام ضروری ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!