اتراکھنڈ میں تباہی کا تجزیہ مشکل بازآبادکاری میں برسوں لگیں گے!

چار دھام یاترا کے تحت کیدارناتھ دھام کے درشن کرنے کے لئے شردھالوؤں کو اب لمبا انتظار کرنا پڑے گا۔ اترا کھنڈ میں آبی آفت سے تباہ ہوئے کیدارناتھ مندر کو دوبارہ ٹھیک کرنے میں کم سے کم 3-4 سال کا وقت لگے گا۔ مرکزی وزیر ثقافت چندریش کماری کٹوچ نے کہا کہ مندر کو ہوئے نقصان کا تجزیہ کرنے کے لئے آثار قدیمہ ہند کے محکمے کی ٹیم سروے کیلئے جلد اتراکھنڈ جائے گا۔حالانکہ یہ ٹیم کچھ دن پہلے بھی گئی تھی لیکن خراب موسم کے چلتے وہ مندر تک نہیں پہنچ پائی۔ انہوں نے یقین دلایا کے مندر کو پرانی شکل میں لانے کے لئے محکمہ آثارقدیمہ ہر ممکن کوشش کرے گا۔ کیدارناتھ دھام میں آئی تباہی کے چلتے جان و مال کا کتنا نقصان ہوا ہے اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ ابھی تک یہ بھی پتہ نہیں چل سکا کے کتنے لوگ لا پتہ ہیں۔ خبر آئی ہے کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے اس قدرتی آفت کے چنگل میں پھنسے کیدارناتھ مندر میں لوگ یوں ہی سوتے رہے ہوں گے چونکہ سرکار ابھی ملبے کے اندر دبی لاشوں کو نکالنے میں جلد بازی نہیں کررہی ہے۔ سائنسدانوں سے غور وخوض کے بعد یہاں سے ملبہ ہٹانے پر غور کیا جائے گا۔ سطح پر ملنے والی لاشوں کا دہا سنسکار کرنے کے بعد اب دوسرے مرحلے میں تباہ ہوئی عمارتوں میں پھنسی لاشوں کو نکال کر ان کا دہا سنسکار کیا جائے گا جس کے لئے سلیب اور لوہا کاٹنے کی مشینوں کا استعمال کیا جائے گا۔ اس کے بعد ان لاشوں کو نکالا جانا ہے جو ملبے میں دبی ہوئی ہیں۔ بابا کیدار کی یاترا کے بھروسے سینکڑوں گھروں کے چولہے جلا کرتے تھے۔ اب آفت نے ان کا یہ چولہا چھین لیا ہے۔ کئی گھروں میں کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ 16 سے17 جون کو بابا کیدارناتھ کے مندر سمیت رام باڑہ ، گوری کونڈ میںآئی قدرتی آفت نے گپت کاشی اور کالی مٹھ وادی کے جہاں سینکڑوں لوگوں کو اپنوں سے چھین لیا ہے وہیں زندہ لوگوں کے جینے کی امیدیں بھی چھین لی ہیں۔ گزر بسر کے وسائل تباہ ہوگئے ہیں۔ کئی لوگوں کے خواب پلک جھپکتے ہی چکنا چور ہوگئے۔ گپت کاشی و کالی مٹھ علاقے میں زیادہ تر دیہات کا گزربسر کیدارناتھ دھام پر منحصر تھا۔ پنڈیتائی سے لیکر دوکان اور خچر کے کام میں یہاں کے سینکڑوں لوگ برسوں سے لگے ہوئے تھے لیکن سیلاب نے سب کچھ تباہ کردیا۔ تباہی میں سینکڑوں کی تعداد میں بوجھ ڈھونے والے قلیوں اور ان کے تقریباً 2 ہزار خچر بھی لا پتہ ہیں یا مرچکے ہیں۔ غیرسرکاری انجمنوں کا دعوی ہے کہ ان میں سے کچھ سیلاب میں بہہ گئے اور کچھ ابھی پھنسے ہوئے ہیں۔ بچاؤ کرنے والے حکام کا انتظارکررہے خچروں کے ذریعے بوجھ ڈھونے والا فرقہ ریاستی سرکار کے تحت رجسٹرڈ نہیں ہے اور موٹے طور پر ریاست میں بوجھ ڈھونے والے تقریباً20 ہزار لوگ ہیں جو سیاحوں کو یا تو خچروں پر یا اپنی پیٹھ پر بٹھا کر تیرتھ استھلوں تک پہنچاتے ہیں۔ 16-17 جون کو آئے آبی قہرنے اتراکھنڈ کو فوری طور پر ساڑھے آٹھ ہزار کروڑ روپے کی چپت لگا دی تھی۔ بھاری بارش اور چٹانے کھسکنے سے چمولی، رودرپریاگ اور اترکھاشی، چتوڑا گڑھ میں جان و مال کا بھاری نقصان ہوا ہے۔ قدرتی آفت کے بعد ان شہروں میں نہ تو آمدو رفت کے لئے سڑک راستہ و پیدل راستہ بچا ہے اور نہ ہی پینے کا پانی ،اجالے کے لئے بجلی اور سیڑھی نما کھتیان میں لہرارہی فصلیں بھی برباد ہوگئی ہیں۔ ملک بیرون ملک کے شردھالوؤں سے گلزار رہنے والا چار دھام مارگ دکھائی تو دے رہا ہے لیکن صرف تباہی کا منظر اور ویرانگی اور مرگھٹ میں تبدیل ہوچکے کیدارناتھ دھام، گوری کنڈ، رام باڑہ میں چوطرفہ بکھری پڑی لاشیں سڑ رہی ہیں جس سے وہاں مہاماری کا اندیشہ ہے۔ آمدورفت کے راستے بند ہونے اور چھوٹے پل ٹوٹنے سے الگ تھلگ پڑے گاؤں ،قصبوں میں بھکمری جیسے حالات پیدا ہورہے ہیں۔ چاردھام کی یاترابند ہونے سے لاکھوں لوگوں کی روزی روٹی پر مشکل وقت آگیا ہے۔ چمولی، رودرپریاگ،اترکاشی کے اضلاع میں تو کاروباری سرگرمی ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں۔ رشی کیش، ہری دوار اور میدانی ضلعوں میں بھی لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ ٹھیلی لگانے والے دوکاندار، ٹریول ایجنٹ،مندروں کے پروہت اور گاڑی ڈرائیور، ہوٹل، لانج،دھرمشالائیں وغیرہ اس یاترا میں سیاحوں کی آمد پر منحصر رہتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق اتراکھنڈ کو سیاحت سے ہونے والی آمدنی میں سے اکیلے چاردھام یاترا کا حصہ قریب 16 ہزار کروڑ روپے کا ہے۔ اب تک چلے یاترا سیزن نے4 ہزار کروڑ روپے کی کمائی مان بھی لی جائے تو یاترا رکنے سے 12 ہزار کروڑ روپے کااقتصادی کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔ اگلے سال بھی اگر یاترا ایک تہائی رہ جاتی ہے تو نقصان 20 ہزار کروڑ روپے تک پہنچ جائے گا۔ ایسے میں کل نقصان 32 ہزار کروڑ روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ پی ایچ ڈی چیمبر آف کامرس کے سروے کے مطابق قریب6 ہزار لوگ بالواسطہ و غیر بالواسطہ طور پر چار دھام یاترا راستے پر کسی نہ کسی روزگار سے جڑے ہیں۔ کیدارناتھ اور بدری ناتھ کا 2 ہزار سے زیادہ کا پنڈا پروہت سماج،12 ہزار سے زیادہ کنڈی، گھوڑے، خچر سے جڑاطبقہ، ایک ہزار سے زیادہ عورتیں اور رضاکار گروپ مندر کے لئے پرساد اور مسافروں کے لئے سوینیئر بنانے والے اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ ایک بڑاطبقہ ٹریول ایجنٹوں ،لانج، ہوٹل، ریستوراں سے جڑا ہے۔ یاترا پر آنے والے سب سے زیادہ اسی پر خرچ کرتے ہیں۔ چمولی ،رودرپریاگ، اترکاشی اور پتوڑا گڑھ میں قریب ڈھائی ہزارلوگ گھریلو صنعتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان صنعتوں میں آٹا چکی سے لیکر جوس بنانے کا کام ہوتا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق یاترا روڈپر قریب پانچ ہزار ہوٹل، ریزاٹ اور دھرمشالائیں ہیں۔ اس میں ہری دوار ،رشی کیش کے ہوٹل وغیرہ شامل نہیں ہیں۔
تشویشناک پہلو یہ ہے کہ چھ ماہ تک چار دھام راستے میں ٹورازم کاروبار سے وابستہ 1 لاکھ 80 ہزار لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ تباہی نے سڑک راستہ ، پانی کی لائنیں،بجلی کے ٹرانسفارمر اور کھمبوں کو تباہ کردیا ہے۔ 950 کروڑ روپے کی لاگت سے بنی قومی شاہراہ اور دیگر سڑکوں کو بنانا ہے۔ تینوں شہروں میں 1418 پینے کے پانی کی لائن ٹوٹ گئی ہے جن کی مرمت کے لئے 284 کروڑ روپے درکار ہیں اور کل 8188 ایکڑ زرعی زمین میں 30 فیصدی کھیت کھلیانوں میں فصل چوپٹ ہوچکی ہے۔ جانور پالن کوبھی نقصان پہنچا ہے۔ تباہی کتنی خوفناک ہے اس کا صحیح اندازہ شاید لگ سکے۔ جس تباہی کے اندازے میں اتنی مشکلیں آرہی ہیں اس کی باز آبادکاری میں کتنا وقت اور پیسہ لگے گا اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اترا کھنڈ کو قدرتی قہر سے خود کو بسانے میں سالوں لگے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!