دلی یونیورسٹی چناؤ میں این ایس یو آئی کی دھماکے دار جیت
دلی یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کے چناؤ میں کانگریس کی اسٹوڈنٹ ونگ این ایس یو آئی کو شاندار کامیابی ملی ہے اور بھاجپا کی یونٹ اے وی بی پی کا صفایا ہوگیا ہے۔ این ایس یو آئی چاروں سیٹوں میں سے تین جیت گئی ہے۔ 2007 ء کے بعد دلی کی سیاست میں لگاتار کمزور پڑ رہی این ایس یو آئی کو سنجیونی مل گئی ہے۔ این ایس یو آئی اچھے خاصے فرق سے پریسڈنٹ ، وائس پریسڈنٹ اور سکریٹری کے عہدے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہی ہے۔دوسو کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہواہے کہ کسی عہدے پر مقابلہ ٹائے رہا۔ جوائنٹ سکریٹری کے لئے ہوئے چناؤ میں دونوں تنظیموں کو برابر ووٹ ملے۔ چناؤ نتائج نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو پوری طرح سے سکتے میں ڈال دیا ہے اور وہ سمجھ نہیں پا رہی ہے کہ آخر طلبا نے یہ کیسا مینڈیٹ دیا ہے کے تمام منفی اشوز کے ہونے کے باوجود بھی ان کی حمایتی اے بی وی پی کو نہ صرف زبردست شکست ملی بلکہ اس تنظیم کا صفایا بھی ہوگیا۔ موجودہ حالات میں پارٹی کو یہ ہضم کرنا آسان نہیں ہوگا۔ دوسری طرف این ایس یو آئی کی اس جیت نے کانگریس ورکروں میں نئی سنجیونی کا کام کیا ہے اور انہیں یہ کہنے کا موقعہ مل گیا ہے کہ دلی کے نوجوانوں نے صاف سندیش دے دیا ہے کہ وہ کانگریس پارٹی اور اسکی پالیسیوں کے ساتھ ہے۔ راجدھانی میں انا ہزارے کے ذریعے کرپشن کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں بھاری تعداد میں اس وقت لڑکوں نے ہی شرکت کی تھی جسے لیکر بھاجپا بہت زیادہ گد گد تھی اور اسے لگ رہا تھا کانگریس مخالف نوجوانوں میں لہر ہے اس کا فائدہ انہیں ملے گا اور اس بات کو وہ پکا مان کر چل رہی تھی کہ دوسو چناؤ میں تو ان کا پرچم لہرانا طے ہے۔ اے بی وی پی کو لگا کہ جس طرح دیش میں کرپشن، مہنگائی سے لوگ پریشان ہیں اس کے چلتے دوسو چناؤ میں لوگ این ایس یو آئی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ ووٹنگ کے کچھ گھنٹے پہلے ہی جب ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو یہ پختہ یقین تھا کہ این ایس یو آئی نے بہتر حکمت عملی کے تحت چناؤ لڑا اور قومی اشو کو اس چناؤ میں حاوی ہونے نہیں دیا۔ اے بی وی پی کو کوئی خاص مدد نہیں ملی جبکہ کئی سینئر کانگریسی لیڈر چناؤ میں کود پڑے اور ہر سطح پر طلبا یونٹ کو مدد دی۔اس میں پیسہ بھی پانی کی طرح بہایا گیا۔ کورٹ آف کنڈیکٹ کے مطابق کوئی امیدوار پانچ ہزار سے زیادہ خرچ نہیں کرسکتا لیکن پارٹی نے یہ کبھی پوری کردی۔ بتایا جارہا ہے کہ اس بارکانگریس نے چناؤ کے لئے کروڑوں روپے کا بچت اور امیدواروں کو پیسے کی کمی نہیں ہونے دی جبکہ اے بی وی پی کے ایک سینئر لیڈر کا کہنا ہے کہ انہیں بی جے پی سے کوئی مدد نہیں ملی۔ کانگریس نے اس چناؤ کو بہت سنجیدگی سے لیا اور اپنی پوری طاقت جھونک دیا۔ ممبر اسمبلی، کونسلر اور وزیر اعلی سبھی نے مورچہ سنبھال رکھا تھا۔ دلی یونیورسٹی میں ریزرو کیٹگری کی خالی سیٹوں کا بھی اشو گرمایا ۔ ان سیٹوں کو اس بار جنرل کیٹگری میں تبدیل نہیں ہونے دیا گیا۔ ایچ آر ڈی وزارت کے حکم پر کالجوں کو زیادہ داخلے دینے پڑے۔ اس کا اثر دیکھنے کو ملا۔ ووٹنگ فیصد بڑھ کر 40 فیصد تک پہنچ گیا۔ مانا جارہا ہے کہ اس سے کافی فائدہ این ایس یو آئی کوملا۔این ایس یو آئی کے ترجمان کا کہنا ہے اے بی وی پی نے ڈوسو چناؤ میں قومی اشوز کو اچھالا اور طلبا کے مفادات والے مسئلے پیچھے رہ گئے جبکہ طلبا نے قومی اشوز کو اہمیت نہیں دی۔ خاص بات یہ ہے کہ ڈوسو چناؤ میں پہلے سال کے طلبا زیادہ ووٹ کرتے ہیں اور انہیں اپنے حمایت میں لانے میں اے بی وی پی ناکام رہی۔ دلی کی وزیراعلی شیلا دیکشت نے ہاتھوں ہاتھ اس جیت کو بھی بھنا لیا۔ انہوں نے و ان کے حمایتیوں نے وزیر اعلی دیکشت کے شفاف انتظامیہ کا نتیجہ بتاتے ہوئے طلباء کا جنادیش بتایا۔ ان کا کہنا ہے بھاجپا نے اس چناؤ میں بھی گھٹیا ہتھکنڈے اپنائے اور جھوٹ کے سہارے چناؤ جیتنے کا خواب دیکھا تھا جسے طلبا نے چکنا چور کردیا۔ اب اسے بہانوں کا سہارا نہیں لینا چاہئے۔ اس جیت سے وزیر اعلی شیلا دیکشت کا قد بڑھا ہے۔ خود وزیر اعلی کی پیٹھ پارٹی صدر سونیا گاندھی نے تھپتھپائی ہے کیونکہ کانگریس مخالف ماحول میں اسے روشنی کی کرن مان رہے ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں