کیامنموہن سنگھ سرکار کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے؟
جناب پرنب مکرجی کو یوں ہی نہیں کہا جاتا تھا کہ وہ کانگریس پارٹی اور یوپی اے سرکار کے سنکٹ موچک رہے۔انہیں صدر بنے ابھی دو مہینے کا وقت بھی نہیں گذراکہ کانگریس کی سرکار کی نیا ڈانواں ڈول ہوگئی ہے۔ پرنب دا کی غیرموجودگی میں کانگریس صدر سونیا گاندھی نے خود پارٹی اور سرکار کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔ یہ کتنی کامیاب نیتا ہیں دو مہینے میں پتہ چل گیا۔ اس دوران سرکار کا اور اپوزیشن کا صرف ٹکراؤ ہی بڑھا ہے۔ رہی بات وقت کی تو پتہ نہیں منموہن سنگھ نے کیا سوچ کر یکدم ڈیزل اور رسوئی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کردیا۔ ابھی جنتا اس سے سنبھلی نہیں تھی کہ خوردہ بازار میں ایف ڈی آئی کا نیا مسئلہ کھڑا کردیا گیا۔کیا ایف ڈی آئی اور ڈیزل اور رسوئی گیس کی قیمتوں کو ایک ساتھ لانا ضروری تھا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ تمام اپوزیشن متحد ہوگئی۔ بھارت بند نے یہ تو ثابت کردیا ہے کہ لوک سبھا میں اکثریتی ایم پی سرکار کے خلاف ہیں۔چاہے وہ بھاجپا ہو یا سپا یا پھر لیفٹ پارٹیاں سبھی آج حکومت کے خلاف کھڑی ہیں۔ ممتا نے آخر کار اپنے وزرا سے استعفیٰ دلوا کر یوپی اے سرکار سے ناطہ توڑ لیا ہے۔ اس کے پیچھے ان کی مجبوریاں ہیں۔مغربی بنگال میں ان کا مقابلہ لیفٹ فرنٹ سے ہے۔ ممتاایک منٹ کے لئے ڈیزل کی قیمتوں پر سودے بازی کر سکتی تھیں لیکن ایف ڈی آئی پر کسی قیمت پر سمجھوتہ نہیں کرسکتی تھیں۔ اگر وہ کرتیں تو مغربی بنگال میں لیفٹ فرنٹ اس کا فائدہ اٹھا کر ممتا کے خلاف چناوی اشو بنا سکتا تھا۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ پر کھلے الزام لگ رہے ہیں کہ وہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور ورلڈ بینک کے اصولوں کے زیر اثر فیصلے لے رہے ہیں۔ انہیں امریکہ کی زیادہ فکر ہے بہ نسبت ہندوستان کے۔ یوپی اے سرکار میں کانگریس سب سے بڑی پارٹی ہے اس لئے اسے سبھی پارٹیوں کو اعتماد میں لے کر چلنا چاہئے ایسا لگتا ہے2004ء میں اتحادی حکومت چلانے کے باوجود کانگریس 8 سال بعد بھی اتحاد کی سیاست کو لیکر سنجیدہ نہیں ہوپائی ہے اور کبھی بھی اس کا غرور اس کے آڑے آجاتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتی ہے کہ 1991ء کی نرسمہا راؤ سرکار اقلیت میں ہونے کے باوجود وہ ڈگمگا نہیں سکی اور اپنے اصول پر قائم رہی اور نمبروں کے جوڑ توڑ سے سرکار بچا لے جاتی تھی۔ پچھلی بار بھی اسے 205 سیٹیں ہی ملی تھیں اور وہ اتحادی پارٹیوں کی حمایت سے ہی چل سکتی ہے۔ اس کے باوجود کانگریس میں آج غرور اتنا حاوی ہے کہ وہ ضروری سے ضروری فیصلوں پر بھی اپنی اہم اتحادی پارٹیوں سے صلاح مشورہ نہیں کرتی اور یکطرفہ فیصلے لے کر امید کرتی ہے اتحادی پارٹیاں اس کی مدد کرنے کو مجبور ہوں گی۔ آج اگر سی بی آئی کا ہوا نہ ہوتا تو دونوں ملائم اور مایاوتی کانگریس کو اس کی صحیح اوقات دکھا دیتیں۔ ویسے بھی سپا اور بسپا قابل بھروسہ اتحادی نہیں مانے جاسکتیں اور فی الحال تو یہ دونوں سخت رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ سرکار کو مغرور اور عوام مخالف بتا رہے ہیں۔ یوپی اے کے ساتھ ڈی ایم کے نے بھی جس طرح سے بھارت بند میں شامل ہوکر کانگریس کو جھٹکا دیا ہے اس کے فیصلے سے صاف ہے کہ حال ہی میں کوئی بھی پارٹی سرکار کے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہیں ہے۔ بہتر ہو کے کانگریس کے پالیسی ساز اس بارے میں غور کریں کہ ایسی حالت کیوں بنی؟ کانگریس پر یہ کہہ کر عام جنتا اور اتحادی پارٹیوں کو متاثر نہیں کرسکتی۔ وہ اقتصادی اصلاحات کے تئیں عہد بند ہے اور ان سے پیچھے ہٹنے والی نہیں ہے۔ کانگریس لیڈر شپ والی یوپی اے سرکار نے حال ہی میں جو فیصلے لئے ہیں انہیں پورے طور پر اقتصادی اصلاحات کی تشبیہ دینا مشکل ہے۔ ڈیزل کے داموں میں اضافہ اور خوردہ کاروبارمیں غیر ملکی سرمائے کو اجازت دینے کے فیصلے کو حقیقتاً اقتصادی اصلاحات ماننا مشکل ہے۔ تیل کمپنیاں ڈیزل کے دام کے معاملے میں ابھی بھی سرکار کی محتاج ہیں۔ اسی طرح خوردہ کاروبار میں غیر ملکی سرمائے کو اجازت دینے کا فیصلہ تب تک ادھورا ہے جب تک اس پر سیاسی اتفاق رائے نہیں بن جاتا۔ ہماری نظر میں بھارت بند کامیاب رہا۔ بھاجپا نے اس کی کامیابی کے لئے بہت محنت کی۔ بند کو کامیاب بنانے کے لئے پارٹی نے اپنے 50 لیڈروں کو الگ الگ شہروں میں بھیجا۔ بھارت بند میں گرفتاری دیتے وقت سپا چیف ملائم سنگھ یادو نے کہا فی الحال ان کی حمایت یوپی اے کے ساتھ ہے لیکن یہ کب تک رہے گی کہہ نہیں سکتے۔ اس کا مطلب ہے کہ بسپا کے فیصلے کا انتظار کریں گے۔ مایاوتی آنے والی10 اکتوبر کو آگے کی حکمت عملی کا اعلان کریں گی کیونکہ ملائم سنگھ سیاسی طور پر منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں اس لئے وہ نہیں چاہیں گے کے وہ مایا سے پہلے اپنے پتتے کھولیں۔ اتنا طے ہے کہ منموہن سنگھ سرکار کے مستقبل پر سوالیہ نشان ضرور لگ گیا ہے۔ کچھ لوگوں کا تو یہاں تک ماننا ہے یوپی اے سرکار کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں