فلم تو بہانہ ہے بنیادی مسئلہ تو امریکہ ہے
امریکہ کی خارجہ پالیسی خاص کر مشرقی وسطیٰ کو لیکر آج سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔آج تقریباً پورا مشرقی وسطیٰ امریکہ کے خلاف صف آراء ہوچکا ہے۔ امریکہ مخالف احتجاج پورے مشرقی وسطیٰ کے ممالک میں پھیلتا جارہا ہے۔ پیغمبر حضرت محمدؐ کی شان میں گستاخی کر فلم بنانے والا ایک امریکی ہی ہے۔ اس بیہودہ اوربکواس فلم کا نام ہے ’انوسینس آف مسلمس‘ ایسی بیہود بکواس فلم بنانے کا نہ تو کوئی تک تھا اور نہ ضرورت۔ ہندوستان کو بغیر سوچے اس بکواس فلم پر پابندی لگا دینی چاہئے۔ اس فلم کو بنانے والا اسرائیلی نژاد امریکن سیم کیسل روپوش ہوگیا ہے۔ اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق دو گھنٹے کی اس فلم کو بنانے کیلئے سیم نے 100 یہودیوں سے تقریباً 25 کروڑ روپے کا چندہ اکٹھا کیا تھا۔ سیم نے کہانی لکھنے کے ساتھ ہی اس فلم کی ہدایت بھی کی تھی۔ انوسینس آف مسلمس فلم کا 14 منٹ کا ٹریلر یو ٹیوب پر جاری کیا گیا تھا جس کے بعد سارا مسلم ورلڈ جل اٹھا۔ یہ فلم بنیادی طور سے انگریزی میں بنائی گئی ہے جسے عربی میں بھی ڈپ کیا گیا ہے۔ جنہوں نے یہ ٹیلر دیکھا ہے ان کا دعوی ہے کہ یہ فلم بہت برے خیالات اور بد نیتی سے بنائی گئی ہے۔ اس کا مقصد محض پیغمبرؐ حضرت کی شان میں گستاخی کرنا تھا۔ بیشک یہ فلم مشرقی وسطیٰ میں آگ لگانے کا سیدھا بہانہ بن گئی لیکن بنیادی طور سے ان ملکوں میں امریکی مخالفت بہت دنوں سے جاری تھی۔ بین غازی کا واقع اسی کڑی میں سوچی سمجھی سازش کا حصہ معلوم ہوتا ہے جہاں راکٹ لانچروں اور ایسے ہی بھاری ہتھیاروں سے مسلح لوگوں میں امریکی سفارتخانے پر حملہ کیا۔ انہوں نے امریکی سفارتخانے کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ سفارتخانے کی عمارت چھوڑ کر کسی محفوظ مقام پر جانے والے تھے۔ خیال رہے مسلح آتنک وادیوں کو اس محفوظ مقام کا بھی پتہ تھا ایک بات تو صاف ہے کرنل معمر قذافی کو بھلے ہی مار دیا گیا ہو لیکن کوئی متبادل حکومتی نظام لیبیا میں نہیں ہے ۔ جن لوگوں نے قذافی کے خلاف مغربی مدد لیکر لڑائی لڑی وہ کوئی جمہوری حمایتی تنظیم نہیں تھی بلکہ ایسے قبیلے تھے جو روایتی طور سے قذافی مخالف تھے۔ مغربی ایشیا اور مشرقی افریقہ میں موجودہ حکمرانوں کے خلاف ناراضگی ضرور ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ طویل یکطرفہ حکمرانی کی وجہ سے وہاں تو نہ تو جمہوری ادارہ ہے نہ ہی اس قسم کی سیاسی طاقتیں ہیں۔ امریکہ نے قذافی اور صدام کو ہٹا کر کچھ دوسرے دیشوں میں حکمرانوں کو ہٹانے میں جو جلد بازی دکھائی اسی کا ایک نتیجہ آج اس کے سامنے آرہا ہے۔ امریکہ حقیقت میں یہ بھول گیا کہ موجودہ نظام کے تہس نہس ہونے سے بد امنی پھیل جائے گی۔ ان ملکوں میں جمہوریت کی کسی روایت کو قائم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ امریکہ نے ہمیشہ شیخوں سے تعلق رکھا ،وہاں کی عوام سے نہیں۔ عوام بنیادی طور پر شیخوں کے خلاف بھی رہی ہے اور امریکہ کے خلاف بھی۔ اب بھی امریکہ کو دلچسپی یہاں جمہوریت کے قیام کی نہیں بلکہ اس میں ہے کہ نیا اقتدار اسکے مطابق کام کرے۔ شاید اسلام مخالف فلم تو ایک بہانہ ہے اور چلتی بیار میں نئے طاقت کے توازن کا ایک دھماکہ تھا۔ آج سے تقریباً25 سال پہلے پاکستان نے امریکی سفیر آرنولڈ رافل کو قتل کیا گیا تھا اور تب امریکہ نے اس میں افغانستان ۔پاکستان میں مذہبی کٹر پسند دہشت گردوں کے فروغ کی وارننگ کو نہیں دیکھا تھا۔ بین غازی میں ہوئی قتل کی وارداتیں صرف بھیڑ کی ناراضگی کی علامت نہیں ہیں ممکن ہے وہ ایک نئے خطرے کا الارم بھی ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں