انا کے لوک پال بل کو جوک پال بل بنانے کی کوشش

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
18 جون 2011 کو شائع
انل نریندر
 لگتا ہے کہ انا ہزارے کے لوک پال بل پر صدی کے سب سے بڑے چاند گرہن کا اثر ہوگیا ہے۔ لوک پال بل جوک پال بل بن کر رہ گیا ہے۔ دیش کو بہت امید تھی کہ سول سوسائٹی کے نمائندے اورحکومت کے درمیان شاید کوئی رضامندی ہوجائے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔انا اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ سرکار ہماری دلیلیں سننے کوتیار نہیں تھی اور محض اپنی بات کرتی رہی۔ سرکار یہ ہی چاہتی ہے کہ لوک پال کے نام پر11 نفری ایک باڈی بنے جو اعلی سطح کے کچھ معاملوں میں بدعنوانی کی جانچ کرے۔ اس کے پاس اپنی کوئی جانچ ایجنسی نہیں ہے جبکہ سول سوسائٹی چاہتی ہے کہ اس باڈی کو سبھی سطح پر کرپشن کی جانچ اور سزا طے کرنے کا حق ملے۔اس کے پاس جانچ کی اپنی مشینری ہو تاکہ وہ حکومت سے آزاد رہے۔ وزیر اعظم اور جج صاحبان کو جانچ کے دائرے میں لانے پر اتفاق رائے نہیں ہوپایا۔ دونوں ہی فریقین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 15 جون کی اس میٹنگ میں وزیر اعظم اور بڑی عدلیہ اور پارلیمنٹ کے اندر ممبران کے برتاؤ کو مجوزہ لوک پال کی جانچ کے دائرے میں لانے کے مسئلے پر کچھ بات چیت نہیں ہوئی۔ بات چیت کے بعد کپل سبل نے اخبار نویسوں سے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے 20 اور21 جون کو ہونے والی اگلی میٹنگ میں دونوں فریق اپنی اپنی تجاویز غور کے لئے رکھیں گے پھربھی دونوں تجویزوں پر اتفاق رائے نہیں بنی تو کیبنٹ کے سامنے دونوں کا ایک مشترکہ پرستاؤ بھیجا جائے گا۔اس میں رضامندی اور غیر رضامندی کے نکات پر واضح طور سے نشاندہی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا دونوں تجاویز جنتا کے سامنے لائی جائیں گی۔ اس عمل میں حکومت سیاست پارٹیوں کو بھی شامل کرنا چاہتی ہے۔ کمیٹی کے ممبر اروند کیجریوال نے کہا کہ غیر رضامندی کے باوجود 20 اور 21 جون کو میٹنگ میں شامل ہوں گے اور اپنا موقف رکھیں گے۔ تاکہ جنتا دیکھ سکے کے کونسا مسودہ موزوں ہے۔ اس اہم میٹنگ سے مایوس انا ہزارے نے جمعرات کو کہا کہ لوک پال مسودہ بل کو دو ایڈیشن کے کیبنٹ کو بھیجنے کے سرکار کے فیصلے پر تعجب ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار کی سخت لوک پال قانون بنانے کی کوئی منشا نہیں ہے اور اگر کمزور قانون بنا تو وہ 16 اگست سے پھر انشن کریں گے۔ انہوں نے کہا جب اپریل میں میں نے انشن کیا تھا تو سرکار نے ہماری سبھی تجاویز ماننے کا وعدہ کیا تھا۔ اب حکومت اپنے وعدے سے مکر رہی ہے۔ بابا رام دیو کی تحریک کو جس طرح توڑنے اور مروڑنے کی کوشش کی گئی تو ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ لاٹھی کھانے اور گولیاں کھانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ہزارے کے ساتھی اروند کیجریوال نے کہا سرکار ایک سخت قانون بنانے اور اس کا سہرہ لینے کا موقعہ کھو رہی ہے۔ اب سرکار لوک پال نہیں بلکہ جوک پال(مذاقیہ) بل لانا چاہتی ہے۔کیا سماج کے ممبر سرکار کو بلیک میل کررہے ہیں۔ اس پر انا ہزارے نے کہا کہ اگر قومی مفاد اور سماج کے مفاد میں کوئی بات اٹھانا ’’بلیک میل ‘‘ کرنا ہے تو ہمیں یہ بھی الزام قبول ہے۔
یہ جتنا اعتراض آمیز ہے اتنا ہی مایوس کن کہ کانگریس پارٹی اور مرکزی حکومت بابا رام دیو کے بعد اب انا ہزارے کی تحریک کو ٹائیں ٹائیں فش کرنے میں لگی ہے۔ پہلے تو کانگریس کے ترجمانوں نے ، پھر خود وزیر خزانہ پرنب مکھرجی نے جس طرح انا ہزارے کے رویئے کے بہانے ان کے مطالبات کو مسترد کیا اس سے اس خدشے کی توثیق ہوتی ہے کہ سرکار نے بدعنوانی کے مسئلے پر دیش کی توجہ ہٹانے کیلئے ہر ہتھکنڈہ اپنایا ہے۔ یہ مضحکہ خیز ہے کہ کانگریس انا ہزارے کو بدنام کرنے کےئے کبھی تو آر ایس ایس کا مکھوٹا بتانے کی حماقت کرتی ہے تو کبھی یہ کہتی ہے کہ مٹھی بھر سول سوسائٹی کے لوگ کیا جنتا کے چنے ہوئے نمائندوں سے اوپر ہیں؟ ہم سرکار سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر انا ہزارے یہ چاہ رہے ہیں کہ ایک مضبوط لوک پال بنایا جائے تو آخر اس میں نامناسب ، غیر آئینی کیا ہے؟ اگر کانگریس کی نظر میں اپوزیشن اور خاص طور سے بھاجپابدعنوانی کے معاملے میں ایماندار نہیں تو پھر انا اور ان کے ساتھیوں اور حمایتیوں کو کیا فیل کئے جانے کی کوشش ہورہی ہے؟ اگر انا کی حمایت میں صرف مٹھی بھر لوگ ہیں توپھر یہ بکھیڑا کیوں پھیلایا جارہا ہے؟ اگر مرکزی اقتدار بدعنوانی سے لڑنے کے لئے پرعزم ہے تو اس کا اظہار کیوں نہیں کرتی؟
ہم سرکار اور کانگریس پارٹی سے براہ راست سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کیا ایک بار منتخب ہونے سے ہی کسی حکومت اور منتخب ممبران پارلیمنٹ ، نمائندوں کو اگلے پانچ سال کے لئے بدعنوانی، قتل، غبن یا آبروریزی کی اجازت ملی ہوئی ہے؟ سرکار کا نظریہ تو صاف ہے ۔ ہم پانچ سال کے لئے چنے گئے ہیں۔ہمیں راج کرنے کیلئے بس پارلیمنٹ کے اندر اپنا حساب کتاب ٹھیک رکھنا ہے۔ نمبرو ں کا حساب جٹانا ہے۔جنتا چیختی ہے تو چیختی رہے۔ آخر کتنے دن چلائے گی، تحریک انشن کرے گی ؟ اصل میں یہ حکومت جب پریشر بنتا ہے تو بوکھلا جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال 4 جون کو رام لیلا میدان میں دیکھنے کو ملی کہ گھبراہٹ میں پہلے تو سرکار ساری باتیں مان جاتی ہے اور بعد میں سب سے آہستہ آہستہ مکر جاتی ہے اور تحریک چلانے والے لیڈروں کو ڈرانے ، دھمکانے کا کام کرنے لگتی ہے۔ ہمیں تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ جب یہ خبر آئی کہ لوک پال بل بنانے کی مہم کی رہنمائی کررہے انا ہزارے کے ٹرسٹ کے کھاتوں پر انکم ٹیکس کی نظر ٹیڑھی ہو گئی ہے۔ لوک پال پر مسودہ کمیٹی کی میٹنگ سے عین پہلے انکم ٹیکس محکمے کے افسروں نے انا کے دفتر پر دستک دے دی۔ ذرائع کے مطابق محکمے کے حکام نے ٹرسٹ کے دفتر جاکر جانچ کی اور قریب پانچ گھنٹے تک پوچھ تاچھ کی۔ سرکار ہر حالت میں بابا رام دیو اور انا ہزارے کی کوشش کو ناکام کرے گی۔ اس کے لئے ضرورت کے مطابق وہ سام ، دام، ڈھنڈ بھید سبھی ہتھکنڈو ں و ہتھیاروں کا استعمال کرے گی لیکن انا و بابا دونوں ہی ڈرنے والے نہیں ہیں اور وہ جنتا کی امیدوں پر کھرا اتریں گے۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ اب بھارت کی عوام بیدار ہوچکی ہے اور سارے دیش میں جو آندھی شروع ہوئی ہے وہ رکنے والی نہیں۔ سرکار چاہے جتنی کوشش کرے۔ لوک پال بل کو جوک پال بل بنانے کی کوشش کرے ۔ حساب تو اسے ہی جنتا کو دینا ہوگا۔
Tags: Anil Narendra, Anna Hazare, BJP, Congress, Daily Pratap, Kapil Sibal, Kejriwal, Lokpal Bill, Manmohan Singh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟