کہاں گئے رشوت کے200 کروڑ؟ سپریم کورٹ نے کیا سوال

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
16 جون 2011 کو شائع
انل نریندر
جو کام سیاستداں نہیں کرپائے وہ کام بصد احترام عدالت عظمیٰ نے کردیا ہے۔ حکومت چاہے جتنا بھی معاملے کو دبانے کی کوشش کرے لیکن جب عدالت عظمیٰ یعنی سپریم کورٹ اس کا نوٹس لیتی ہے ،اس دیش کو یقین ہے کہ انصاف ضرور ملے گا۔ ٹو جی اسپیکٹرم معاملے میں اگر سپریم کورٹ نے اتنا سخت رویہ نہ اپنایا ہوتا تو شاید اتنے ملزم تہاڑ جیل کی ہوا نہ کھا رہے ہوتے۔ یہ میں نے اسی کالمم میں کچھ دن پہلے لکھا تھا کہ جیل تو ٹھیک ہے لیکن پیسے کا کیا ہوا؟ کنی موجھی کی ضمانت عرضی کے دوران سپریم کورٹ نے یہ معاملہ اپنے طور پر اٹھا دیا۔ عدالت نے ٹو جی اسپیکٹرم معاملے میں سی بی آئی سے یہ بھی پتہ لگانے کے لئے کہا ہے کہ اے راجہ کے عہد میں ٹیلی کام کمپنیوں کو لائسنس جاری کرنے میں سرکاری خزانے کو کتنا نقصان ہوا؟ عدالت عظمیٰ نے یہ سوال بھی پوچھا کہ رشوت کی رقم 200کروڑ روپے کا کیا ہوا اور اس کی پوزیشن کیا ہے؟ جسٹس بی ایس چوہان اور جسٹس سوتنتر کمار کے ڈویژن بنچ نے کنی موجھی اور شرد کمار کی ضمانت کی عرضیوں پر سی بی آئی سے یہ سوال کیا کہ اے راجہ کے عہد میں کمپنیوں کو جاری کئے گئے ٹو جی اسپیکٹرم لائسنس سے سرکاری خزانے کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔ نچلی عدالت میں معاملے کی کیا پوزیشن ہے۔کنی موجھی سے عدالت نے صاف کہا کہ آپ کے حق میں کوئی خاص دلیل نہیں پیش کی گئی ہے۔ بس صرف یہ ہوسکتا ہے کہ آپ ایک خاتون ہیں اور دفعہ437 کے تحت خاتون ہونے کے ناطے آپ کو ضمانت دینے میں ہمدردی دکھائی جائے۔عدالت نے سی بی آئی سے براہ راست سوال پوچھا کہ جانچ بتاتی ہے کہ 200 کروڑ روپے بطوررشوت دی گئی یا غلط طریقے سے پیسہ دیا گیا ، اس لئے اسے قانونی لین دین نہیں مانا جاسکتا۔ اس صورت میں یہ 200 کروڑ روپے کی پراپرٹی ہے اور اس کے ناطے یہ پیسہ کہاں گیا؟ غور طلب ہے کنی موجھی اور کلیگنر ٹی وی کے منیجنگ ڈائریکٹر شرد کمار کو ٹو جی گھوٹالے میں کلیگنر ٹی وی کو ملی 200 کروڑ روپے کی رشوت کے معاملے میں 20 مئی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان دونوں کو معاملے میں دائر کردہ دوسری چارج شیٹ میں ملزم بنایا گیا تھا۔ دونوں دہلی ہائی کورٹ اور ٹرائل کورٹ کے ذریعے انہیں ضمانت نہ دئے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی ہے۔ کلیگنر ٹی وی پرائیویٹ لمیٹڈ میں کنی موجھی اور شرد کمار کی 20-20 فیصد حصے داری ہے۔ کمپنی کو مبینہ طور پر شاہد بلوا کی ڈی بی رئلٹی کے ذریعے200 کروڑ روپے ملے تھے۔ جسٹس بی ایس چوہان اور جسٹس سوتنتر کمار نے سماعت کے دوران سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بدعنوانی و انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سب سے بدنما چہرہ ہے۔
جہاں تک ہم سمجھتے ہیں اس مقدمے میں200کروڑ روپے کو پیدا کرکے عدالت کے سامنے دکھانا بہت ضروری ہے۔ کیس پراپرٹی ہی نہیں ہوگاتو کیس کا کیا ہوگا؟ بغیر اس رقم کو پیش کئے کنی موجھی اور شرد کمار کے خلاف قانونی نقطہ نظر سے کیس کمزور ہوسکتا ہے۔ دیش بھی یہ ہی چاہتا ہے کہ ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالے میں 1 کروڑ 70 لاکھ کے گھوٹالے کی رقم کو وصول کیا جائے تبھی جنتا کو تسلی ہوگی۔ دیکھیں سی بی آئی کیا جواب دیتی ہے۔ کنی موجھی کے وکیل نے تو سیدھا کہا ہے کہ شاہد بلوا کی کمپنی ڈی بی رئلٹی سے200 کروڑ روپے کا قرضہ لیا گیا تھا جو بعد میں اسے ادا کردیا گیا۔ اب سی بی آئی کو نہ صرف الزامات کو ثابت کرنا ہے بلکہ کیس پراپرٹی بھی ریکور کرنی ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!