لکھیم پور میں آبروریزی کے بعدسونم کے قتل کا معاملہ

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
16 جون 2011 کو شائع
انل نریندر
پولیس کی وردی میں چھپے بھیڑیوں کی کالی کرتوت ایک بار پھر سامنے آگئی ہے۔ اترپردیش کے لکھیم پور ندھاسن تھانے میںیہ واردات ہوئی ہے۔ 10 جون کی شام کو تھانے کے پاس رہنے والے مزدور انتظار علی کی 14 سالہ بیٹی سونم کی لاش ایک پیڑ سے لٹکی ملی تھی۔ پولیس نے معاملے کو دبانے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہو پائی۔ ریاست کے اسپیشل ڈی جی پی برج لال نے بتایا کہ پیڑ کی جس شاخ سے لڑکی کی لاش لٹکی پائی گئی وہ زمین سے محض چار فٹ آٹھ انچ کی اونچائی پر ہے جبکہ لڑکی کی لمبائی چار فٹ دس انچ تھی۔ حیوانیت کی شکار لڑکی سونم کا6 سالہ بھائی ارمان علی پورے معاملے کا چشم دید گواہ ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ اور اس کی بہن سونم تھانے کے قریب اپنے جانوروں کو گھانس چرا رہے تھے۔ اتنے میں ایک پولیس والا آیا اور اس نے مجھے رائفل دکھا کر کہا کہ یہاں سے بھاگ جاؤں۔ میں نے دیکھا دو اور پولیس والے میری بہن کو ایک کمرے میں کھینچ کر زبردستی لے گئے۔ پولیس نے سونم کا پوسٹ مارٹم بھی کروا لیا اور رپورٹ میں کہا گیا ،سونم کی موت گلا گھٹنے سے ہوئی لیکن سونم کے والدین انتظارعلی اور ترنم بیگم نے کہا کہ ان کی بیٹی سے آبروریزی کی گئی ہے اور پھر اس کو قتل کردیا گیا۔ ہنگامہ ہونے پر دوبارہ پوسٹ مارٹم کروایا گیا ۔ قبر سے لاش نکالی گئی۔ پوسٹ مارٹم میں یہ بات پتہ چلی کہ متوفی لڑکی کا گلا دبا کر قتل کیا گیا تھا حالانکہ آبروریزی کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ پہلی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کو خودکشی قرار دینے والے تین ڈاکٹروں کو معطل کردیا گیا ہے۔ لاپرواہی کے الزام میں لکھیم پور کے ایس پی ڈی کے رائے کو ہٹا دیا گیا ہے جبکہ ثبوت مٹانے کے الزام میں ایک داروغہ سمیت چار پولیس والوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک کانسٹیبل رام چندر کو گرفتار کیا گیا ہے وہیں سی بی سی آئی ڈی کی 10 رکنی ٹیم کی ابتدائی جانچ سے سامنے آیا ہے کہ سونم کے ساتھ بدفعلی کی کوشش کی گئی تھی۔
یہ افسوسناک ہے کہ ایسے گھناؤنی واردات پر ہمدردی جتانے کی جگہ اوچھی سیاست شروع ہوگئی ہے۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری دگوجے سنگھ نے کہا کہ ریاست میں قانون و نظام تو ملائم سنگھ یادو کی سرکار میں بھی خراب تھا لیکن مایاوتی سرکار میں تو یہ بدسے بدتر ہوگیا ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب تھانے کے اندر قتل ہونے لگا ہے۔ یہ حالات اس لئے پیدا ہوئے ہیں کیونکہ پولیس افسروں کی تعیناتی اور انہیں ہٹانے میں بسپا لیڈر ورکروں کی براہ راست مداخلت ہے۔ کانگریس جنرل سکریٹری نے کہا کہ ریاستی پولیس معاملے کو دبانے میں لگی ہے جبکہ معاملے میں بڑے عہدوں سے لیکر نیچے تک کے لوگ شامل ہیں اور ان کی آزادانہ جانچ کی ضرورت ہے لہٰذا معاملے کی جانچ سی بی آئی سے کرائی جانی چاہئے۔ بھاجپا کے ترجمان راجیو پرساد روڑی نے کہا مایاوتی سرکار کا پولیس پر کنٹرول نہیں ہے۔ تھانہ کمپلیکس میں لڑکی کا قتل چونکانے والی واردات ہے۔ دراصل پورے اترپردیش میں قانون و نظم کے حالات بری طرح خراب ہوچکے ہیں۔ جنتا تبدیلی چاہتی ہے ۔ بھاجپا آنے والے اسمبلی چناؤ میں موجودہ اقتدار کو بدلنے کے لئے اپیل کے ساتھ جنتا میں جائے گی۔
دوسری جانب بہوجن سماج پارٹی نے کہا ندھاسن کی واردات کو لیکر اپوزیشن پارٹیاں ریاست کی حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ اس کوشش میں قومی انسانی حقوق کمیشن اور قومی خواتین کمیشن بھی اس میں شامل ہے۔ پارٹی ترجمان نے ایک بیان جاری کرکے کہا چناوی سال ہونے کے سبب اپوزیشن پارٹیاں اس واقعے کو بلا وجہ طول دے رہی ہیں۔ وزیراعلی کو جیسے ہی اس واقعہ کی اطلاع ملی انہوں نے سخت کارروائی کی ہدایت دی اور قصورواروں کے خلاف سخت قدم اٹھائے۔ انہوں نے واقعہ کی سی بی سی آئی ڈی سے بھی جانچ کرانے کے احکامات دئے ہیں۔ اور متوفی بچی کی لاش قبر سے نکلواکر پوسٹ مارٹم کروایا، جس سے سچائی اجاگر ہوگئی۔ ڈاکٹروں و پولیس ملازمین کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ ہم بسپا کے موقف سے متفق ہیں۔ کوئی بھی حکومت پولیس ملازمین کے ایسے ہتھکنڈوں اور بدفعلوں کو کبھی نہیں روک سکتی۔ کیا دہلی کے تھانوں میں کبھی آبروریزی نہیں ہوئی ہے یا قتل نہیں ہوا ہے؟ اس کا مطلب کیا ہے کہ ریاستی سرکار استعفیٰ دے؟ وزیر اعلی اور انتظامیہ کے ہاتھ میں سخت کارروائی کرنا ہے اور وہ مایاوتی نے کردی ہے۔ کوئی لیپا پوتی کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی کسی کو بچانے کی۔ اس گھناؤنے واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے اتنی ہی کم ہے۔ دیکھیں اس پر پارٹی سیاست نہیں ہونی چاہئے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!