سوامی نگم آنند کی موت کیلئے ذمہ دار کون؟

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
17 جون 2011 کو شائع
انل نریندر
جس وقت دیش کے تمام الیکٹرانک چینلوں پر و پرنٹ میڈیا کی توجہ بابا رام دیو کی طرف لگی ہوئی تھی اور بابا اپنے 9 دن پرانے انشن کو توڑ رہے تھے اسی وقت اسی ہسپتال میں ایک نوجوان سنیاسی سوامی نگم آنند تقریباً چار مہینے کے انشن کی وجہ سے اپنی زندگی کے آخری لمحے گن رہے تھے۔ سوامی نگم آنندعمر صرف34 سال تھی۔ وہ گنگا میں غیر قانونی کھدائی کے احتجاج میں 19 فروری سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے۔ ادھر بابا رام دیو نے انشن توڑا ادھر نگم آنند دنیا سے چلے گئے۔ یہ خبر لوگوں تک دیر سے پہنچی تو اس لئے نہیں کہ سوامی کچھ دنوں سے انشن پر تھے یا ان کے انشن کا اشو کمزور تھا۔ تعجب ہے کہ اطلاعات کے تیزی سے بہاؤ والے اس دور میں بھی ایک موت کی خبر محض اس لئے ہم سے چھوٹ گئی کیونکہ اس کے پیچھے کوئی ڈرامہ نہیں تھا۔ سوامی جی گنگا میں آلودگی اور اس کی پاکیزگی کو بحال کرنے کو لیکر بھوک ہڑتال پر تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ گنگا علاقے میں کھدائی پر پوری طرح روک لگے اور ہمالین اسٹرون کریچر کو کمبھ علاقے سے ہٹایا جائے۔ ان کی یہ مانگ تقریباً ویسے ہی تھی جس پر سرکار اپنے طریقے سے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کروڑوں روپے برباد کردیتی ہے اور نتیجہ صفر نکلتا ہے۔ سوامی نے اپنی مانگوں کو لیکر19 فروری کو انشن شروع کیا تھا اور انشن کے 68 ویں دن27 اپریل کو ان کی طبیعت خراب ہوئی تھی ، تو انہیں ضلع انتظامیہ نے ہسپتال میں بھرتی کرادیا۔30 اپریل کو خبر اڑی کے سوامی کو نرس نے زہر دے کر مارنے کی کوشش کی ہے۔ 2 مئی کو وہ نزعے میں چلے گئے تو انہیں علاج کے لئے دہرہ دون کے اسی ہمالین انسٹیٹیوٹ جولی گرانٹ ہسپتال میں بھرتی کرایا گیا جہاں بابا رام دیو بھرتی تھے۔ پچھلے ایتوار کو محض 34 برس کی عمر کے توانا اور ایماندار اس نوجوان سنت کی موت ہوگئی۔ یہ واقع یہ بتاتا ہے کہ کسی سچے مقصد سے اگر کوئی انشن بغیرڈھول باجوں کے کرے تو اس پر میڈیا و پرنٹ میڈیا خبریں دینے میں کتنا سنجیدہ ہوتا ہے۔ بھاجپا نے سوامی رام دیو کے انشن کو لیکر آسمان اٹھا لیا۔ لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج دہرہ دون جاکر ان کی حمایت میں پریس کانفرنس بھی کر آئیں۔ لیکن اسی ہسپتال میں بھرتی سوامی نگم آنند کی خبر کسی نے نہ لی۔ کانگریس نے بھی اس پر اپنی سیاست چمکانی شروع کردی اور اتراکھنڈ کی بھاجپا سرکار پر طعنے مارنے شروع کردئے۔ دراصل گنگا کی پاکیزگی ان سیاسی پارٹیوں کے لئے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی۔ گنگا کی پاکیزگی کی قسم کھانے والی تمام سیاسی پارٹیوں کا رویہ بنیادی طور پر ایک جیسا ہے۔ اتراکھنڈ میں ناجائز کھدائی مافیا کو ملنے والی سیاسی سرپرستی ہو یا پھر بھانپ بجلی پروجیکٹوں کا استعمال ، اس میں کسی ایک پارٹی کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔کورٹ کا بھی نظریہ حوصلہ افزاء نہیں رہا۔ گنگا کی آلودگی کے لئے جو عناصر ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔ اس لئے بھی یہ ممکن لگتا ہے کیونکہ ان سے حکمرانوں کے سیاسی اور اقتصادی مفادات وابستہ ہیں۔ تقریباً 20 برس بعد اور 2 ہزار کروڑ روپے خرچ کرکے یہ معلوم ہوا کہ اسکیم کی شروعات میں گنگا جتنی آلودہ تھی آج اس سے کہیں زیادہ آلودہ ہوچکی ہے۔ اب تک 7 ہزار کروڑ کی ایک وسیع اسکیم لانچ کرنے جارہی ہے۔ سوامی جی کے دیہانت پر بیحد افسوس بھی ہے اور شرمندگی بھی۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!