ماہر معاشیات منموہن سنگھ کے رہتے مہنگائی کم ہونے والی نہیں
یہ اس دیش کی بدقسمتی ہی سمجھا جائے کہ کوئی بھی اس مسئلے کی بات نہیں کرتا جو ہندوستان کی90 فیصدی عوام کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔نہ تو انا ہزارے اس کی بات کرتے ہیں اور نہ ہی بابا رام دیو۔ ایک لوک پال بل کو لیکر اڑے ہوئے ہیں۔ دوسرے کالی کمائی کو واپس لانے پر۔ دونوں ہی اشو پر موثر طور پر عمل ہونے میں برسوں لگ جائیں گے لیکن جو اشو جنتا کو کھا رہا ہے اس پر کوئی اپوزیشن پارٹی بھی کھل کر نہیں بولتی، یہ اشو ہے مہنگائی کا۔ روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ نے عوام کی ناک میں دم کردیا ہے۔ پیٹرول اور کئی ضرورت کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کے چلتے ماہ مئی میں مہنگائی شرح بڑھ کر 9فیصدی سے اوپر چلی گئی ہے لیکن عام جنتا کو مہنگائی کی چوطرفہ مار کے لئے ابھی اور کمر کسنی ہوگی۔ آنے والے دنوں میں ڈیزل، رسوئی گیس جیسی چیزوں کے داموں میں بھی اضافہ ہونے کے آثار ہیں۔ وہیں ریزروبینک آف انڈیا کو بھی 16 جون کو اپنی ریپوریٹ میں اضافہ کرنے اور شرح سود کو بڑھانے پر غور کرنا پڑا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق سود کی شرح میں 1 فیصد اضافہ کردیا گیا ہے۔ جس سے بینکوں کا قرض اور مہنگا ہو سکتا ہے۔ تیل کمپنیوں کو ہورہے خسارے سے فکر مند پیٹرولیم وزیر جے پال ریڈی نے منگلوار کو وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ملاقات کرکے ڈیزل اور رسوئی گیس سیلنڈر کے دام بڑھانے پر جلد فیصلہ کرنے کی گذارش کی تھی۔ ذرائع کے مطابق وزارت تیل اور ڈیزل کے داموں میں 3 سے4 روپے فی لیٹر اور رسوئی گیس سلنڈر پر 25 سے35 روپے کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ مٹی کے تیل کی قیمتوں میں بھی جزوی طور پر اضافہ کرنے کی سفارش کی ہے۔ منموہن سرکار میں کوئی ایسا وزیر نہیں جسے جنتا کی تھوڑی بہت فکر ہو۔ پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین مونٹیک سنگھ آہلوالیہ نے منگلوار کو آگاہ کیا کہ اگر پیٹرولیم کی لاگت بڑھتی ہے تو اس کا بوجھ صارفین پر نہیں ڈالا گیا تو اس سے پیٹرول سیکٹر میں سنگین کرائسس کھڑا ہوجائے گا۔ کچھ اسی طرح کے نظریات وزیر اعظم کی اقتصادی مشیر کونسل کے چیئرمین سی رنگا راجن نے بھی ظاہر کئے ہیں۔ رنگا راجن کا کہنا ہے او ایم سی ایس تیل کمپنیوں کو بھاری نقصان ہو رہا ہے۔ اگر ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا توبجٹ پر بھی برا اثر پڑے گا۔ افراط زر شرح فی الحال 9 فیصد کے قریب ہے اور اس کے لئے بنیادی طور پر پیٹرول کے داموں کو ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ جب سے منموہن سنگھ وزیر اعظم بنے ان کی اقتصادی پالیسیوں نے غریبوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ان کے ارد گرد ایسے لوگ ہیں جو نمبروں کی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن بنیادی طور پر عام آدمی پر کیا گذر رہی ہے اس کی کسی کو پرواہ نہیں۔ اسی اصلاحات میں اربوں روپے کے گھوٹالے ہورہے ہیں۔ ان تیل کمپنیوں کی کیوں جانچ نہیں کی جاتی؟ ان میں اتنے گھپلے ہیں اور الٹے سیدھے خرچوں پر کسی کا دھیان کیوں نہیں جاتا؟ سرکاری کھپت کو کم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی؟ منموہن سنگھ اب نہ صرف اپنی پارٹی کے لئے ہی بوجھ بنتے جارہے ہیں بلکہ غریب جنتا کے دشمن نمبر ون بن گئے ہیں۔ یہ کوئی گھوٹالہ روک نہیں پاتے اور جتنے گھوٹالے ان کے عہد میں ہوئے ہیں کسی وزیر اعظم کے دور میں نہیں ہوئے۔ کانگریس کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ منموہن سنگھ انہیں اگلا چناؤ نہیں جتا سکتے۔ اس لئے اگر کانگریس اگلے چناؤ میں پھر سے اقتدار میں آنے کی سوچ رہی ہے تو بہتر ہے کہ نیا وزیر اعظم چن لیں۔ منموہن سنگھ کی پالیسیوں نے عام جنتا کو تباہ کردیا ہے۔ ان کے عہد میں صنعت کاروں کی پراپرٹی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ افسر شاہی کا بول بالا ہے۔ کانگریس میں اور بھی تو لیڈر ہیں مثال کے طور پر وزیر دفاع اے کے انٹونی کو ہی لے لیجئے، وہ ایک ایماندار لیڈر ہیں پھر وزیر اعلی بھی رہے ہیں لیکن ان کے دامن پر کبھی کوئی داغ نہیں لگا۔ اس دور میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت تمام گھوٹالوں کے گھیرے میں تار تار ہوگئی ہے۔ کانگریس کے اعلی کمان کو2014 کے لوک سبھا چناؤ کی فکر ہورہی ہے اور اب منموہن سنگھ کے چہرے کو لیکر تیسری مرتبہ اقتدار پانے کیلئے داؤ لگانا ٹھیک نہیں ہوگا کیونکہ مخالفین نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ منموہن سنگھ آج تک کے سب سے بدعنوان حکومت کے ایماندار وزیر اعظم ہیں۔ کچھ تنقید کار تو کئی طریقے سے تیرچلانے لگے ہیں۔ اے کے انٹونی نے حال ہی میں بیان دیا تھا کہ اقتدار کے آس پاس تمام طاقتوں کا جھمگٹ لگا ہوا ہے جو کام کاج میں شفافیت کی مانگ کی مخالفت کرتے ہیں وہ لوگ اس کے سوتردھار ہیں اور امید کرتے ہیں تو کیا غلط کرتے ہیں ۔ اس موقعے پر ایک تبصرے کے خاص معنی سمجھے جارہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ یہ تیاری اگلے دور کے لئے ہے۔ اس وقت کانگریس کے’’ منموہن‘‘ اے کے انٹونی ہوں گے۔ ویسے بھی 10 جن پتھ کے بھروسے مند ہیں۔ ان کے خلاف اتنا ہی کہا جاتا ہے کہ وہ عیسائی ہیں لیکن کانگریس کے جو لوگ کہتے ہیں کے انٹونی کسی ہندو لیڈر کے مقابلے پر زیادہ اشوز کے نکتے کو ماننے والے ہیں آپ کیا سمجھے؟ اتنا طے ہے کہ منموہن سنگھ جس افسرشاہ لابی کے ہیں اس میں عام جنتا کا بھلا ہونے والا نہیں۔ یہ مہنگائی یوں ہی بڑھتی رہے گی اور امیر اور امیر ہوتا جائے گا ،غریب اور غریب۔ جنتا کو بھارتیہ جنتا پارٹی سے مایوسی ہے کیوں نہیں وہ پیٹرول ، ڈیزل وغیرہ کی مجوزہ اضافے کی کھل کر مخالفت کرتی، کیوں مہنگائی کو لیکر دھرنے اور مظاہرے نہیں کئے جاتے؟ سرکار کو بعد میں ایک پروٹسٹ لیٹر دینا یا بیان دینا کافی نہیں ہے۔ اسے ایسا کرنے سے روکنا ، اور مہنگائی کم کرنے کے ٹھوس قدم اٹھانے پر مجبور کرنا بھاجپا کا پہلا ایجنڈا ہونا چاہئے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ جب سے منموہن سنگھ وزیر اعظم بنے ان کی اقتصادی پالیسیوں نے غریبوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ان کے ارد گرد ایسے لوگ ہیں جو نمبروں کی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن بنیادی طور پر عام آدمی پر کیا گذر رہی ہے اس کی کسی کو پرواہ نہیں۔ اسی اصلاحات میں اربوں روپے کے گھوٹالے ہورہے ہیں۔ ان تیل کمپنیوں کی کیوں جانچ نہیں کی جاتی؟ ان میں اتنے گھپلے ہیں اور الٹے سیدھے خرچوں پر کسی کا دھیان کیوں نہیں جاتا؟ سرکاری کھپت کو کم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی؟ منموہن سنگھ اب نہ صرف اپنی پارٹی کے لئے ہی بوجھ بنتے جارہے ہیں بلکہ غریب جنتا کے دشمن نمبر ون بن گئے ہیں۔ یہ کوئی گھوٹالہ روک نہیں پاتے اور جتنے گھوٹالے ان کے عہد میں ہوئے ہیں کسی وزیر اعظم کے دور میں نہیں ہوئے۔ کانگریس کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ منموہن سنگھ انہیں اگلا چناؤ نہیں جتا سکتے۔ اس لئے اگر کانگریس اگلے چناؤ میں پھر سے اقتدار میں آنے کی سوچ رہی ہے تو بہتر ہے کہ نیا وزیر اعظم چن لیں۔ منموہن سنگھ کی پالیسیوں نے عام جنتا کو تباہ کردیا ہے۔ ان کے عہد میں صنعت کاروں کی پراپرٹی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ افسر شاہی کا بول بالا ہے۔ کانگریس میں اور بھی تو لیڈر ہیں مثال کے طور پر وزیر دفاع اے کے انٹونی کو ہی لے لیجئے، وہ ایک ایماندار لیڈر ہیں پھر وزیر اعلی بھی رہے ہیں لیکن ان کے دامن پر کبھی کوئی داغ نہیں لگا۔ اس دور میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت تمام گھوٹالوں کے گھیرے میں تار تار ہوگئی ہے۔ کانگریس کے اعلی کمان کو2014 کے لوک سبھا چناؤ کی فکر ہورہی ہے اور اب منموہن سنگھ کے چہرے کو لیکر تیسری مرتبہ اقتدار پانے کیلئے داؤ لگانا ٹھیک نہیں ہوگا کیونکہ مخالفین نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ منموہن سنگھ آج تک کے سب سے بدعنوان حکومت کے ایماندار وزیر اعظم ہیں۔ کچھ تنقید کار تو کئی طریقے سے تیرچلانے لگے ہیں۔ اے کے انٹونی نے حال ہی میں بیان دیا تھا کہ اقتدار کے آس پاس تمام طاقتوں کا جھمگٹ لگا ہوا ہے جو کام کاج میں شفافیت کی مانگ کی مخالفت کرتے ہیں وہ لوگ اس کے سوتردھار ہیں اور امید کرتے ہیں تو کیا غلط کرتے ہیں ۔ اس موقعے پر ایک تبصرے کے خاص معنی سمجھے جارہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ یہ تیاری اگلے دور کے لئے ہے۔ اس وقت کانگریس کے’’ منموہن‘‘ اے کے انٹونی ہوں گے۔ ویسے بھی 10 جن پتھ کے بھروسے مند ہیں۔ ان کے خلاف اتنا ہی کہا جاتا ہے کہ وہ عیسائی ہیں لیکن کانگریس کے جو لوگ کہتے ہیں کے انٹونی کسی ہندو لیڈر کے مقابلے پر زیادہ اشوز کے نکتے کو ماننے والے ہیں آپ کیا سمجھے؟ اتنا طے ہے کہ منموہن سنگھ جس افسرشاہ لابی کے ہیں اس میں عام جنتا کا بھلا ہونے والا نہیں۔ یہ مہنگائی یوں ہی بڑھتی رہے گی اور امیر اور امیر ہوتا جائے گا ،غریب اور غریب۔ جنتا کو بھارتیہ جنتا پارٹی سے مایوسی ہے کیوں نہیں وہ پیٹرول ، ڈیزل وغیرہ کی مجوزہ اضافے کی کھل کر مخالفت کرتی، کیوں مہنگائی کو لیکر دھرنے اور مظاہرے نہیں کئے جاتے؟ سرکار کو بعد میں ایک پروٹسٹ لیٹر دینا یا بیان دینا کافی نہیں ہے۔ اسے ایسا کرنے سے روکنا ، اور مہنگائی کم کرنے کے ٹھوس قدم اٹھانے پر مجبور کرنا بھاجپا کا پہلا ایجنڈا ہونا چاہئے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں