اب غیر سیاسی منموہن سرکار وکانگریس پارٹی آمنے سامنے

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
12 جون 2011 کو شائع
انل نریندر
مجھے منموہن سنگھ حکومت پر کبھی رحم آتا ہے ،کبھی مایوسی بھی۔ رحم اس لئے آتا ہے کہ اس حکومت کو جو لوگ چلا رہے ہیں وہ سبھی غیر سیاسی ہیں۔ سب سے اوپر سونیا گاندھی ہیں جو سپر پرائم منسٹر ہیں اور سرکار کا ریموٹ کنٹرول ہیں۔ وہ نان پالیٹیکل ہیں۔ ان کے نیچے ہیں وزیر اعظم سردار منموہن سنگھ۔ جنہوں نے زندگی میں ایک آدھ ہی چناؤ لڑا لیکن اس کے بعد آج تک نہیں لڑا۔سونیا گاندھی کے چیف ایڈوائزر احمد پٹیل جیسے لوگ پردے کے پیچھے سے فیصلہ کرتے ہیں وہ بھی غیر سیاستداں سے ہی ہیں۔ اس لئے یہ حکومت جو بھی فیصلے کرتی ہے اس میں افسرشاہی کی بدبو زیادہ آتی ہے۔سیاستداں کم ہونے سے مایوسی ہوتی ہے۔آپ حال ہی میں اس حکومت کے اہم فیصلے دیکھئے چاہے وہ انا ہزارے کا معاملہ ہو، چاہے بابا رام دیو کا۔ دونوں میں ہی بڑے بچکانے طریقے سے اس منموہن سنگھ سرکار نے معاملے کو رفع دفع کیا۔ میری بات تو چھوڑیئے اب تو کانگریس پارٹی کے اندر بابا معاملے پر گھمسان چھڑ گیا ہے۔
رام لیلا میدان میں لگے بابا رام دیو کے یوگ کیمپ کو پولیس کارروائی کے تحت ہٹانے کے بعد کانگریس میں رسہ کشی چھڑی ہوئی ہے۔ اس معاملے میں اب ایک طریقے سے پارٹی اور سرکار آمنے سامنے آگئے ہیں۔ اس مسئلے پر کانگریس کے کئی سینئر لیڈر اور سرکار میں وزیر کی کرسی سنبھالنے والے لیڈر آپس میں بھڑ گئے ہیں۔ سب سے زیادہ بوکھلائے ہوئے پارٹی کے جنرل سکریٹری دگوجے سنگھ ہیں۔ جتنا برا بھلا وہ بابا رام دیو کو کہہ رہے ہیں اس سے زیادہ وہ اپنی حکومت کی خامیوں پر تنقید کررہے ہیں۔ تازہ حملہ انہوں نے وزیر مالیات پرنب مکھرجی پر کیا ہے جبکہ اجتماعی ذمہ داری کو بھول کر وزیر سیاحت سبود کانت سہائے نے کوتاہی کا ہی الزام جڑ دیا ہے۔ دگوجے سنگھ نے پرنب مکھرجی اور مرکز کے تین وزرا کو بابا سے بات کرنے کیلئے ہوائی اڈے جانے پر سخت اعتراض کیا ۔انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ پرنب مکھرجی نے تو بابا کو لیکر اپنا پورا مستقبل ہی داؤ پر لگا دیا۔ سرکار کی تنقید کرتے ہوئے دگوجے سنگھ نے کہا مرکز میں پرنب مکھرجی جب سے وزیر بنے ہیں تب رام دیوپیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ وزرا کوایئر پورٹ جاکر بابا کو منانے کے بارے میں اپنی ناخوشی ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر وہ وزیر ہوتے تو کبھی بھی رام دیو کو نہیں مناتے۔لیکن سرکار کی مجبوری کے چلتے وہ پارٹی کی رائے کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ سبود کانت سہائے نے منہ کھولا اور کہا کہ رام لیلا میدان میں بابا کے خلاف پولیس کارروائی پر وضاحت میں سرکار کی طرف سے ٹال مٹول برتا گیا۔ حالانکہ سہائے ان وزراء میں شامل تھے جو سرکار کی طرف سے بابا سے بات چیت کررہے تھے۔ سہائے نے کہا کہ جب پہلے ہی سے سرکار کی طرف سے طے ہوچکا تھا کہ انشن سے بابا اپنے حمایتیوں کے ساتھ نہیں ہٹے تو ان پر پولیس کارروائی کی جائے گی۔ کارروائی ہونے کے بعد وزیر داخلہ پی چدمبرم کی جانب سے چار دن بعد وضاحت آئی جس سے عوام میں غلط پیغام گیا اور اس سے سرکار اور پارٹی دونوں کی ساکھ خراب ہوئی۔
کانگریس کی میگزین ’کانگریس سندیش‘ تک نے چار وزراء کو بابا کو ہوائے اڈے پر لینے پر سخت اعتراض جتایا ہے۔ پارٹی کا پیپر ہوتے ہوئے بھی اس نے اپنی ادارئیے میں لکھا ہے کیا چار سینئر وزرا کا ہوائی اڈے جانا ضروری تھا؟ انل شاستری اس میگزین کے مدیر ہیں۔ اداریئے میں کہا گیا ہے سرکار کا یہ فرض ہے کہ وہ شہری سماج کے مطالبات پر متوازن رویہ اپنائے لیکن یہ کام اس طریقے سے ہونا چاہئے کہ ایک منتخب سرکار اور اس کے اختیارات کی عدولی نہ ہو۔ اداریئے کے مطابق کسی اہم گروپ کو سڑکوں پر آئینی معاملوں میں فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور شہری سماج کے نمائندوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ قانون کی تعمیل کی کچھ خاص خانہ پوریاں ہوتی ہیں۔ کانگریس سندیش کے مدیر انل شاستری ہیں اور اس کے ادارتی بورڈ میں سلمان خورشید، سربجیت سنگھ شامل ہیں۔ دوسری جانب دگوجے سنگھ کے بیان سے کانگریس کے کچھ سینئر لیڈر متفق نظر نہیں آرہے۔ ہوائی اڈے کے بارے میں وزرا کی مجبوری گناتے ہوئے پارٹی کے سینئر لیڈر نے کہا کہ رام دیو کے دہلی آنے کی اطلاع تھی۔ اس سے پہلے ہی انہیں انشن نہ کرنے کیلئے سرکار منانے میں لگی تھی۔ وزیر انسانی وسائل کپل سبل ، وزیر سیاحت سبود کانت سہائے رام دیو سے فون پر رابطے میں تھے۔ لیکن دہلی آنے سے ٹھیک پہلے رام دیو سے فون پر رابطہ نہیں ہوپارہا تھا۔ جیسے ہی رابطہ قائم ہوا تب تک رام دیو دہلی ہوائی اڈے پر اتر گئے تھے۔ ان سے کئی اشوز پر بات کرنے کے لئے وزراء نے ہوائی اڈے کے وی آئی پی لانچ میں بات کرنا مناسب سمجھا۔
کانگریس میں بڑھ رہا انتشار کا سلسلہ اب پردیشوں تک پہنچ چکا ہے۔ ریاستی لیڈروں نے بھی اب پارٹی کے حکمت عملی سازوں کو خط لکھ کر مطالبہ کرنا شروع کردیا ہے کہ پارٹی کے جو لیڈر بابا رام دیو سے وابستہ ہیں انہیں تنظیم اور سرکار میں اہمیت نہیں ملنی چاہئے۔ اجین سے کانگریس ایم پی پریم چند گڈو نے ریاست کے انچارج اور پارٹی جنرل سکریٹری ہری پرساد کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ مرکزی وزیر کملناتھ کا نام لئے بغیر کہا کہ جو لوگ بابا رام دیو کے چرن چھوتے ہیں وہ سرکار میں کیوں بیٹھے ہیں؟پارٹی کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ وہیں کانگریس پارٹی کی میگزین ’کانگریس سندیش‘ میں شائع ادارئیے پر پارٹی نے اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری اور میڈیا شعبے کے سربراہ جنارن دویدی نے مدیر کو خبردار کیا ہے کہ یہ میگزین کانگریس ماؤتھ پیس ہے یعنی اس کی زبان ، یہ بات انہیں یاد رکھنی چاہئے اور اس میں اپنے نظریات مدیر کو تھونپنے کا اختیار نہیں ہے۔
مرکزی سرکار کے مسٹر کلین چہرے اے کے انٹونی کی شفافیت پر گول مول بیان، پرنب دا کے اقتصادی مورچے پر گھیرا بندی اور پی چدمبرم کی اچانک رام دیو کے بہانے اپنی ساکھ پیش کرنے کی کوششیں چند مثال ہیں جس سے کانگریس پارٹی میں بھاری ناراضگی پائی جاتی ہے۔ دراصل پارٹی اور حکومت دونوں بابا رام دیو معاملے کو لیکرعجب سی پوزیشن میں پہنچ چکی ہیں۔ بابا رام دیو پر اگلی کارروائی بھی اسی ادھیڑ بن کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ پرنب پر جمعرات کو ایک اخبار میں شائع خبر کو لیکر بھی پارٹی میں اور سرکار میں الگ الگ قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ سرکار کے اندر متضاد نظریات سامنے آرہے ہیں۔ بابا کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ انہیں زبردستی ہسپتال لے جا کر آئی سی یو میں داخل کرا دیا گیا ہے۔ رام لیلا میدان میں پولیس لاٹھی چارج سے متاثرہ خاتون راج بالا کی حالت تو انتہائی نازک ہے، سرکار کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ اگلا قدم اٹھائے تو کیا اٹھائے؟ بابا کو اگر کچھ ہوگیا تو کیا ہوگا؟ آخر میں ممبئی میں شیو سینا لیڈر ادھو ٹھاکرے نے سوال کیا ہے 4 جون کو لاٹھی چارج کے خلاف یووراج راہل گاندھی دھرنے پر کیوں بیٹھے؟ جب بھٹہ پارسول میں پولیس مظالم کے خلاف دھرنا دے سکتے ہیں تو وہ رام لیلا میدان کانڈ پر کیوں نہیں؟

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟