اوما بھارتی کی واپسی:صحیح سمت میں صحیح قدم

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
9 جون 2011 کو شائع
انل نریندر

آخر کار بھاجپا کے وزیر اعظم کے امیدوار کے تمام دعویداروں کے اختلاف کے باوجود بھاجپا صدر نتن گڈکری نے اوما بھارتی کو پارٹی میں واپس لے لیا ہے۔جب اوما بھارتی کو بھاجپا میں شامل کرنے کا گڈکری پارٹی ہیڈ کوارٹر میں اعلان کررہے تھے تو ان کی سخت مخالفت کرنے والے ارون جیٹلی اور سشما سوراج و وینکیا نائیڈو موجود نہیں تھے۔ دراصل اوما بھارتی کی واپسی کے پیچھے کئی اسباب و کئی مجبوریاں تھیں۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ آج کل سبھی پارٹیوں کی توجہ یوپی مشن 2012 ء پر لگی ہوئی ہیں۔ بھاجپا لیڈر شپ یہ سمجھ رہی ہے کہ کانگریس کی ہوا روز بروز خراب ہورہی ہے لیکن اس سے بھاجپا کا راستہ آسان نہیں ہورہا ہے۔ دہلی کی گدی کا راستہ براستہ یوپی آتا ہے اس لئے اگر اترپردیش میں پارٹی نے اچھی کارکردگی نہیں دکھائی تو دلی دربار تک پہنچا آسان نہیں ہوگا۔ یوپی میں ویسے بھی بھاجپا لیڈر شپ کی کمی ہے۔ جو نیتا ہیں وہ تمام پھنکے کارتوس کی طرح ہیں۔ بھاجپا کو یوپی میں نئی جان ڈالنے کے لئے ایک ایسا چہرہ چاہئے تھا جو نوجوانوں، خواتین، پسماندہ اور ہندو ووٹوں کو ایک ساتھ پارٹی کے نیچے لا سکے۔ نتن گڈکری کو لگا کہ اوما بھارتی میں یہ سب خوبیاں موجود ہیں اور وہ ایک اچھی منتظمہ بھی ہیں۔ جب وہ مدھیہ پردیش کی وزیر اعلی تھیں تو انہوں نے اچھی حکومت دی تھی۔ انہی کے بل پر پارٹی اقتدار میں آئی تھی۔


اوما بھارتی کی بھاجپا میں چھ سال بعد واپسی ہوئی ہے۔ بھاجپا لیڈر شپ و حکمت عملی سازوں کا ماننا ہے کہ جس طرح سے اوما بھارتی جارحانہ سیاست کرتی ہیں ان کا مقابلہ ان کے الفاظ اور ان کے طریقے میں کرنے کیلئے پارٹی کے پاس کوئی ایسا لیڈر پردیش میں موجود نہیں تھا جو ان کی زبان میں ان کو جواب دے سکے۔ بھاجپا کا خیال ہے کہ اگر پارٹی اترپردیش میں سیٹوں میں اضافہ نہیں کرپائی تو وہ بھی جس طریقے سے تقریر کرتی ہیں اس سے پارٹی کو ایک ماحول بنانے میں مدد ضرور ملے گی۔ سماجی تانے بانے کے نقطہ نظر سے بھی اگر دیکھا جائے تو پارٹی کے بڑے قد کے لیڈر کلیان سنگھ کی پارٹی سے چھٹی اور پھر دوبارہ واپسی کے بعد بھی پارٹی اپنے روٹھے پچھڑے طبقے کو اپنے ساتھ جوڑنے میں ناکام رہی۔ اوما بھارتی کا لودھ فرقے کا ہونا بھی پارٹی کے لئے اچھا ہوسکتا ہے۔ ذات پرستی کی سیاست کے لئے مشہور اترپردیش میں پسماندہ طبقہ شاید اوما کے سبب پارٹی سے جڑ جائے؟


اوما بھارتی کی مشکل یہ ہے جب انہیں غصہ آتاہے تو وہ سب کچھ بھول جاتی ہیں اور آپے سے باہر ہوجاتی ہیں۔ مجھے آج وہ منظر یاد ہے جب تقریباً ساڑھے پانچ سال پہلے اوما بھارتی نے میڈیا کے سامنے لال کرشن اڈوانی کی موجودگی میں پارٹی کے کچھ لوگوں پر آف دی ریکارڈ بات کرنے اور ان کی ساکھ کو خراب کرنے اور اپنی نظراندازی کا الزام لگایا تھا۔ اور بھری میٹنگ سے اٹھ کر چلی گئیں تھیں۔ تب بھاجپا پارلیمانی بورڈ نے 6 دسمبر2005 ء کو انہیں پارٹی کی ابتدائی رکنیت سے خارج کردیا تھا۔ جہاں ہم سمجھتے ہیں کہ شری نتن گڈکری نے صحیح سمت میں ایک صحیح قدم اٹھایا ہے وہیں اوما نے بھی پچھلے پانچ چھ سالوں میں یہ سبق لیا ہوگا اور مستقبل میں وہ ڈسپلن کی لکشمن ریکھا کو پار نہیں کریں گی۔
Tags: Anil Narendra, Arun Jaitli, BJP, Daily Pratap, Nitin Gadkari, Sushma Swaraj, Uma Bharti, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!