بابا کا’ ہٹھ یوگ‘ سرکار کے’ لٹھ یوگ‘ کے سامنے بے بس

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
8 جون 2011 کو شائع
انل نریندر
 سنیچر کی رات بابا رام دیو اور ان کے حمایتیوں کو جس طریقے سے دہلی پولیس نے بھگایا وہ آج کل موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ تمام الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میںیہ اشو زور شور سے چھایا ہوا ہے۔ سنیچر کو جو ہوا اس پر عام جنتا میں دو طرح کا رد عمل ہے۔ کچھ ہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ بابا کے ساتھ جو ہوا صحیح ہوا اور یہ ہی ہونا چاہئے تھا۔ بابا نے ساری حدود پار کردی تھیں۔ سمجھوتہ ہونے کے بعد بھی اپنا انشن جاری رکھنے کا اعلان کرکے انہوں نے سرکار کا غصہ مول لے لیا تو کچھ کا کہنا ہے کہ بابا نے دہلی پولیس سے جو اجازت لی تھی وہ ایک یوگا کیمپ لگانے کیلئے تھی اور کہیں بھی انہوں نے اس میں انشن یا ستیہ گرہ کی بات نہیں کہی تھی۔اور اپنے حمایتیوں کی تعدادتین ہزار بتائی تھی اور یقین دلایا تھا کہ رام لیلا میدان میں اس سے زیادہ لوگ نہیں آئیں گے۔ پھر بھی انہوں نے انشن اور ستیہ گرہ کیا بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ان کے چیلے اکٹھے ہوئے۔ اس لئے انتظامیہ کو مناسب کارروائی کرنے کا حق تھا۔جہاں منموہن سرکار اور کانگریس پارٹی کے رد عمل کا سوال ہے تو پارٹی کے جنرل سکریٹری دگوجے سنگھ کا تبصرہ بھی مناسب ہی تھا۔ بابا رام دیو پر شروع سے تنقید کرتے رہے دگوجے سنگھ نے انہیں اب ٹھگ قرار دیتے ہوئے ان کی سرگرمیوں کی جانچ کی مانگ کی۔ سرکار کی کارروائی کو صحیح ٹھہراتے ہوئے انہوں نے کہا بابا کے ساتھ وہی ہوا جو ایک ٹھگ کے ساتھ ہوناچاہئے ۔ دگوجے سنگھ نے کہا کہ بابا نے دہلی آکر سوامی شنکر دیو کے کشل باغ آشرم میں پناہ لی تھی۔ بعد میں انہیں چھوڑا گیا۔ اس کے بعد یوگ سکھانے والے بابا کرم ویر کو بھی انہوں نے ٹھگا۔ انہوں نے کہا جولائی 2007 ء سے سوامی شنکر دیو غائب ہیں اور ان کا کوئی پتہ نہیں۔ رام دیو نے بغیر کسی لائسنس کے کینسر جیسی بیماری کو ختم کرنے کے دعوے پر اپنے ماننے والوں اور جنتا کو ٹھگا ہے۔ جنتا کی طرح وہ شاید سرکار کو بھی ٹھگنا چاہتے تھے۔ یہ ہے ان لوگوں کے نظریات اور دلیلیں جو سنیچر کی رات کی کارروائی کو مناسب مانتے ہیں۔
دوسری جانب زیادہ تر جنتا مانتی ہے کہ سرکار نے بہت بھاری غلطی کی ہے اور اسے کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ سرکار نے بابا معاملے کو شروع سے ہی غلط طریقے سے ہینڈل کیا۔ سب سے پہلی غلطی تو یہ تھی کہ سرکار کو بابا کو انشن کرنے کی اجازت ہی نہیں دینی چاہئے تھی۔دہلی کے قانون کے تحت رام لیلا میدان پر سیاسی ریلی نہیں ہوسکتی۔بھارت سوابھیمان منچ اور پتانجلی یوگا کمیٹی نے ایک یوگا کیمپ اور دھرنا کرنے کی اجازت مانگی تھی۔ سرکار چاہتی تو وہ کہہ سکتی تھی کہ ہم یوگ شیور کی اجازت دے سکتے ہیں لیکن دھرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جو اجازت کیلئے خط دیا گیا تھا اس میں حمایتیوں کی تعداد تین ہزار بتائی گئی تھی لیکن سرکار کو اس کی خفیہ ایجنسیوں نے اچھی طرح سے بتادیا تھا کہ یہ تعداد تین ہزار سے زیادہ ہوگی۔ اسے سرکار کی چوک یا غلطی کہا جاسکتا ہے۔ جب بابا دہلی آئے تو ہوائی اڈے پر ان کا خیر مقدم کرنے کے لئے منموہن کیبنٹ کے نمبر دو کے وزیر پرنب مکھرجی سمیت چار وزیر کیوں پہنچے تھے۔ کیوں بابا کو دہلی ہوائی اڈے سے باہر آنے دیا گیا؟ خبر ہے کہ حکومت نے ایک خصوصی طیارہ خاص طور سے تیار کررکھا تھا جو اس صورت میں بابا کو ہری دوار واپس لے جاتا لیکن ایسا نہیں۔ تیسری سب سے بڑی حماقت حکومت نے سنیچر کی رات کو 1 بجے کی۔ جب رام لیلا میدان میں سوتے بابا کے حمایتیوں کو جن میں عورتیں ، بچے بزرگ شامل تھے، میدان سے بھگایا۔ پولیس نے اس بربریت کا مظاہرہ کیا۔ سپریم کورٹ بھی چونک گئی۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں اپنے آپ نوٹس لیتے ہوئے مرکزی سرکار اور دہلی انتظامیہ کو نوٹس جاری کرکے دو ہفتے کے اندر اس کا جواب دینے کو کہا۔ رام لیلا میدان میں برپایا گیا پولیس قہر اتنا بھیانک تھا جس کو سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس میں40 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے جن میں سے ابھی بھی کئی کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ بابا کے ستیہ گرہ کو تہس نہس کرنے کے لئے پولیس بہت ہی چوکسی برتے ہوئے ہے۔ بابا کے ستیہ گرہ کو ختم کرنے کیلئے پولیس نے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنائے۔ انشن کاریوں کا کہنا ہے پولیس نے نہ صرف لوگوں کو مار پیٹ کر پنڈال سے نکالا بلکہ ان کے اسٹیج کو بھی آگ کے حوالے کردیا۔ پولیس کے ذریعے چھوڑے گئے آنسو گیس کے گولے سے اسٹیج پر آگ لگ گئی۔ آگ کے سبب وہاں افراتفری مچ گئی۔ اوپر وال کا شکریہ ادا کرنا چاہے کہ یہ دوسراجہنم نہیں بن گیا جس میں سیکڑوں لوگوں کی جان جا سکتی تھی۔ جس طریقے سے سوتے لوگوں پر پولیس نے لاٹھیاں برسائیں اور اس بھاگ دوڑ میں درجنوں بچے، عورتیں ، بزرگ دب کر مر سکتے تھے۔ پولیس کی بربریت کا شکار ہوئے شردھالوؤں کی داستان سن کر کوئی بھی بوکھلا اٹھے۔ ان کا کہنا ہے انہوں نے جلیاں والا باغ کے واقع کے بارے میں کتابوں میں پڑھا تھا لیکن سنیچر کی رات اس واردات کو دوہراتے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ پولیس نے ان کے ساتھ جو ذیاتیاں اور سختی کی اس میں سبھی حدیں توڑ دی۔ پولیس کی بربریت سے بچنے کیلئے بابا رام دیو کے حمایتی بدحواسی کی حالت میں رام لیلا میدان سے بھاگ نکلے۔ لیکن باہر آنے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ نہ ان کے پاس پہننے کو کپڑے ہیں اور نہ ہی گھر جانے کو پیسہ ، جو کچھ تھا وہ ہڑبڑاہٹ میں رام لیلا میدان میں چھوٹ گیا۔ اب اس حالت میں آخر جائیں تو کہاں جائیں؟کچھ حمایتی سڑکوں پر آسرے کی تلاش میں آئی ٹی او اور کناٹ پلیس کی طرف چلے گئے اور کچھ نے ریلوے اسٹیشن کی طرف رخ کرلیا۔ کچھ عورتیں تو اپنی آن بان بچانے کے لئے رات کے گہرے اندھیرے میں رنجیت سنگھ فلائی اوور سے چل کر آریہ اناتھالیہ ،بارہ کھمبا روڈ پہنچیں۔ یہ اناتھالیہ شری وریش پرتاپ چودھری چلاتے ہیں۔ یہاں بابا آتے جاتے رہتے ہیں۔ کچھ کو اور کوئی راستہ نظر نہیں آیا تو وہ بنگلہ صاحب کی طرف اور رقاب گنج گورودوارے کی طرف چل پڑے کیونکہ جیب میں اتنے پیسے نہیں تھے کوئی ذریعہ ٹھہرنے کا تلاشتے اس لئے پیدل کی گورودواروں میں پناہ لینے کے لئے چل پڑے۔ پولیس کی بربریت کا شکار ہوئے ان لوگوں کی حالت دیکھ کر گورودواروں میں موجودہ سیوا داروں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتے ہوئے ان کے لئے نہ صرف رکنے کا انتظام کیا بلکہ 24 گھنٹے انشن پر بیٹھے ان لوگوں کیلئے لنگر کا بھی انتظام کیا۔ اس دوران بابا کے بہت سے ایسے ماننے والے تھے جنہوں نے یہ کہتے ہوئے کھانے سے انکار کردیا کہ آسرے کی چھت مل گئی یہ ہی ہمارے لئے بہت ہے۔ انشن تو تبھی توڑیں گے جب بابا جی کا آدیش ملے گا۔ وہیں ان میں سے کئی شردھالو ایسے تھے جنہوں نے سیوا داروں کے بار بار کہنے کے بعد کھانا کھایا۔ بنگلہ صاحب گورودوارے میں اترپردیش کے مہوبہ علاقے سے آئی ایک عورت مناکشی شکلا کے مطابق پولیس نے جس طرح سے انہیں رام لیلا میدان سے بھگایا تو لگ رہا تھا کہ کسی نے انہیں گھر سے بے گھر کردیا ہے۔ اب تو میرے پاس پہننے کو کپڑے ہیں اور نہ ہی گھر جانے کیلئے پیسہ؟
چونکانے والی بات یہ بھی ہے کہ اس رات بہت سے لوگ لاپتہ ہوگئے تھے جن کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں لگ پایا۔ ایک چشم دید کے مطابق پولیس کچھ بلو لائن بسیں لیکر آئی تھی اس میں بھر بھر کر لوگوں کو رام لیلا میدان سے لے جایا گیا اور ان کے رشتہ دار ان کی تلاش میں اسپتالوں ، دھرمشالاؤں اور انشن کی جگہ کے آس پاس بھٹک رہے ہیں۔ لاپتہ لوگوں میں کئی عورتیں بھی شامل ہیں۔ جھارکھنڈ کے جمشید پور سے تقریباً100 لوگوں کے جتھے کے ساتھ بابا رام دیو کے ستیہ گرہ میں پہنچے شیلندر کمار نے روتے ہوئے بتایا کہ ان کے ساتھ جھارکھنڈ کے گوراجوڑی گاؤں سے آئی تین عورتیں لاپتہ ہیں۔ 53 سالہ کملا بھگت، 50 سالہ رینوکا اور سشیلا کا کوئی پتہ نہیں۔ افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ مرکزی سرکار کا کوئی بھی وزیر زخمیوں کو دیکھنے ہسپتال تک نہیں گیا۔
میری رائے میں تو سرکار جیتی ہوئی بازی ہار گئی ہے۔ بابا آہستہ آہستہ کانگریس کو بے نقاب کررہے تھے۔ پولیس کارروائی کے سبب وہ سب کچھ دب گیا۔ سرکار بھارت میں ہی نہیں ساری دنیا میں کٹہرے میں کھڑی ہوگئی ہے۔ امریکہ تک میں اس کی ندامت ملامت ہورہی ہے۔ بابا چمک گئے راتوں رات اور ہیرو بن گئے۔ مجھے یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ مان لو کہ بابا نے وعدہ خلافی کی اور تحریک جاری رکھنے کا اعلان کردیا تو کیا فرق پڑتا ؟ آخر سرکار کو ایسی کیا جلدی تھی کہ رات کے1 بجے سوتے ہوئے بزرگوں، بچوں اور عورتوں پر ڈنڈے برسوا دئے گئے؟ اہم سوال یہ ہے کہ اس سارے معاملے کا جنتا پر کیا اثر ہوگا؟ کیا بھارت کی عوام اب یہ نہیں کہے گی کہ یہ کچلنے والی سرکار ہے؟ بدعنوان ہے اور بدعنوان لوگوں کو سرپرستی دے رہی ہے؟ مجھے جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کا قصہ یاد آرہا ہے۔پہلے سرکار نے اسے چڑھایا بعد میں آپریشن بلو اسٹار کیا۔ تاریخ پھر دوہرا رہی ہے۔ رہی سہی کثر دگوجے سنگھ جیسے لیڈر نے پوری کردی۔ وہ ایک طرف بابا کے حمایتیوں کو شرمندہ کررہے ہیں وہیں ہندوؤں کو بھی بار بار اکسا رہے ہیں۔ دگوجے سنگھ اسامہ کو تو اسامہ جی کہتے ہیں بابا کو ٹھگ۔ سرکار کیلئے ایک بڑی مصیبت کھڑی ہوگئی ہے۔ پہلے سے چوطرفہ گھری سرکار ن ’ آبیل مجھے مار‘ کی پالیسی اپنائی ہے۔ اب دیکھیں انا ہزارے کی تحریک سے وہ کیسے نمٹتی ہے۔ جی ہاں انہوں نے8 جون کو پھر سے دھرنے پر بیٹھنے کا اعلان کیا ہے۔

Tags: Anil Narendra, Anna Hazare, Baba Ram Dev, Congress, Corruption, Daily Pratap, delhi Police, Ram Lila Maidan, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟