بہن جی نے ایک ہی جھٹکے میں اپوزیشن کی ہوا نکال دی

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
5 جون 2011 کو شائع
انل نریندر
کسانوں کے ساتھ کھڑے ہوکر کانگریس اترپردیش میں اپنی راہ آسان کرنے کی جو کوشش کررہی تھی اس کو مایاوتی نے ایک جھٹکے میں کافور کردیا۔ اتنا ہی نہیں زمین تحویل اور باز آبادکاری کی عوام مفاد کی نئی پالیسی کو اعلان کرکے بہن جی نے مرکزی حکومت کے سامنے ایک چیلنج بھی کھڑا کردیا ہے۔ بھٹہ پارسول کانڈ کے بعد مرکزی سرکار پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں زمینی تحویل کے بارے میں نئے قانون بنانے کیلئے ایک بل لانے جارہی ہے۔ اترپردیش میں پھر سے خود کو کھڑا کرنے میں لگے شہزادہ راہل گاندھی بہت زور لگا رہے ہیں۔ تحریک میں شامل ہوکر گرفتاری تک دی، وزیر اعظم سے نمائندہ وفد کو بھی ملوا کر ان سے تسلی دلا دی۔ لیکن بہن جی نے سب پر پانی پھیر دیا۔ وزیر اعلی مایاوتی نے کسانوں کی ایک پنچایت بلاکر ان سے بات چیت کرنے کے بعد نئی زمین تحویل پالیسی کا اعلان کردیا ، جس میں اب پرائیویٹ کمپنیاں اپنے پروجیکٹوں کے لئے کسانوں سے سیدھی بات چیت کرکے زمین خرید سکیں گی۔ اس میں اب انتظامیہ یا حکومت کا رول صرف ایک ثالث کا ہی رہے گا۔ نئی زمین تحویل پالیسی فوری عمل میں آگئی ہے۔ بہن جی نے مرکزی سرکار سے ریاستی حکومت کی طرز پر زمین تحویل پالیسی پورے دیش میں لاگو کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ پچھلے دنوں سپریم کورٹ نے بھی اس پیچیدہ مسئلے پر سوال پوچھا تھا کہ آخر دیش میں زمین تحویل کی مرکزی حکومت کی پالیسی کیا ہے۔ مایاوتی نے کسانوں سے بات چیت کے بعد نئی زمین تحویل پالیسی سے نہ صرف مغربی اترپردیش میں شورش ماحول کو خاموش کرنے میں مدد ملے گی بلکہ بہت حد تک اس سے اپوزیشن کو سیاسی فائدہ اٹھانے سے بہن جی نے اپنی سرکار اور پارٹی کو بچا لیا ہے۔ یہ تحویل ریاستی سرکار میں اپنے ہنگامی اختیارات کا استعمال کرکے آسان بنا دیا ہے۔ کسانوں کو شکایت تھی کہ صنعتی فروغ کے نام پر زمین کو تحویل میں لیکر اسے پرائیویٹ بلڈروں کو دے دیا گیا۔ نئی پالیسی سے یہ شکایت کافی حد تک دور ہوجائے گی۔ اس پالیسی کے تحت سرکار صرف پبلک سیکٹر کے اداروں یا صنعتی فروغ کے لئے ہی زمین لے سکے گی۔ اس کے علاوہ 2010 ء کی زمین تحویل پالیسی کے فائدے بھی کسانوں ملیں گے۔
وزیر اعلی مایاوتی نے بھٹہ پارسول گاؤں کا خاص ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کے واقعات کے دوران گاؤں کے لوگوں کی املاک کو جو نقصان پہنچا ہے اس کے نفع نقصان کی تکمیل ریاستی حکومت کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس پالیسی کو ان کی پارٹی پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں قومی سطح پر نافذکرانے کے لئے مرکزی سرکار پر دباؤ بنائے گی۔ ایسا نہ ہونے پر وہ پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ ریاستی حکومت کی یہ پالیسی مرکزی سرکار کی مجوزہ پالیسی سے کئی گنا زیادہ بہتر اور کسان ہتیشی ثابت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس پارٹی کی جانب سے ہریانہ حکومت کی زمین تحویل پالیسی کی تعریف سیاسی اغراز پر مبنی ہے۔ وزیراعلی نے اپوزیشن پارٹیوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن پارٹیاں زمین تحویل قانون تیار کرنے کے لئے مرکزی سرکار پر دباؤ نہ ڈال کر اترپردیش میں سیاست چمکانے لگی ہیں۔ہماری رائے میں بہن جی نے راستہ دکھا دیا ہے جس پر مرکز اور ریاستی حکومتوں کو سنجیدگی سے غور کرکے ایسی پالیسی کا اعلان کرنا چاہئے جس سے کسان مطمئن ہوں اور تحریکیں بھی نہ چلیں۔
Tags: Anil Narendra, Bhatta Parsaul, Daily Pratap, Greater Noida, Land Acquisition, Mayawati, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!