جب مسجد پہنچے آر ایس ایس چیف !

جمعرات کو دو خبریں دیش میں اہمیت سے چھائی رہیں پہلی کٹر مسلم تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی)سے جڑے ٹھکانوں پر این آئی اے کے چھاپے اور اس کے حکا م و ورکروں کی گرفتاری اور دوسری آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کا ایک مسجد میں جانا انہیں اماموں کی ایک تنظیم کے صدر نے راشٹر پتا کہا۔حالاںکہ آر ایس ایس سے جڑے نیتا کو مہاتما گاندھی کو راشٹر پتا کہے جانے پر اکثر اعتراض جتاتے ہیں ۔ اخبار میں شائع خبروں کے مطابق مدرسوں کے بچوں سے بات چیت کے دوران امام عمر احمد الیاسی نے بھاگوت کو راشٹر پتا کہا تھا جس پر موہن بھاگوت نے کہا کہ سب لوگ ایک قوم کی اولاد ہیں ۔ کستربا گاندھی مارگ پر واقع مسجد کے امام آل انڈیا آرگنائزیشن کے سرے سروا عمیر احمدالیاسی سے آر ایس ایس چیف نے تنہائی میں تقریبا ً 40منٹ تک بات کی ٹی وی نیوز چینل 24نے مولانا الیاسی سے پوچھا تھا کہ وہ موہن بھاگوت کے بیان پر کیا کہیں گے کہ ہندو اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہے اور کہا کہ مسلمانوں کے بغیر ہندوستان مکمل نہیں ہوتا اس کے جواب میں عمیر احمد نے کہا کہ جو انہوں نے کہا وہ صحیح کیوں کہ وہ راشٹر پتا ہیں ۔ الیاسی نے بتایا کہ موہن بھاگوت ان کے دعوت پر ہی آئے تھے ۔ آر ایس ایس چیف کو نہ صر ف راشٹر پتا بلکہ راشٹر رشی بھی کہا مانا جا رہا ہے کہ آر ایس ایس اپنی مسلم مخالف ساکھ کو چھوڑنے اور مسلمانوں کے ایک طبقے کو اپنے ساتھ جوڑ نے کی کوشش کے تحت رابطہ مہم چلا رہی ہے ۔ آر ایس ایس چیف کا دہلی میں مسجد اور مدرسے جانا ٹھیک اسی دن ہوا جس دن کئی اخباروں اور ویب سائٹ کے ذریعے سے موہن بھاگوت اور پانچ مسلم دانشوروں کی ملاقات کی خبر باہر آئی یہ ملاقات پچھلی 22اگست کو ہوئی تھی لیکن اس کی خبر اب سامنے آئی ۔ بھاگوت کے سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی اور دہلی کے سابق لیفٹننٹ گورنر نجیب ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ضمیرالدین شاہ اور سابق ایم پی ساہل صدیقی اور بزنس مین سعید شیروانی شامل تھے ۔ بھاگوت سے دہلی میں واقع آر ایس ایس کے ایک دفتر میں ملاقات ہوئی تھی ۔ اس ملاقات کے بعد سابق لیفٹننٹ جنرل ضمیرالدین شاہ نے بی بی سی سے کہا کہ ملک میں جس طرح کے حالات ہیں ان سے اگر کوئی موثر طریقے سے نمٹ سکتا ہے تو وہ یا وزیر اعظم نریندر مودی ہیں یا پھر موہن بھاگوت ہم نے ان سے بات چیت کیلئے وقت مانگتے ہوئے کچھ وقت پہلے خط بھیجا تھا اس ملاقات کے بارے میں ہم پرانے دوستوں کے درمیان مہینوں بات چیت ہوئی اور اس کے بعد ہی بات چیت کیلئے وقت طے کیا گیا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!