چیتے تو آ گئے لیکن چنوتیاں کم نہیں!

جنگلی جانوروں کے ماہرین کا خیال ہے کہ مدھیہ پر دیش کے کونو نیشنل بائیولوجیکل پارک میں دیش سے ناپید ہوئے چیتوں کو بسانے کی کئی دہائیوں سے کوششوں کی محنت رنگ لائی جب افریقی ملک نامیبیاسے آٹھ چیتوں کی پہلی کھیپ یہاں پہنچی اس کے پیچھے کئی برسوں کی ریسرچ اور محنت تھی ۔ بھارت اور ساو¿تھ افریقہ کے ماہرین شامل رہے 17ستمبر کو ایک شاندار تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ان چیتوں کو باقاعدہ طور سے پارک میں واقع باڑو میں چھوڑ دیا ۔ لیکن جنگلاتی ماہرین مانتے ہیں کہ صرف اتنا ہی کافی نہیں ہوگا حالاں کہ سبھی چیتوں کی گردنوں میں کالر بیلٹ بندھے ہوئے ہیں اور جنگل میں بھی سی سی ٹی کیمرے اور ڈرون سے بھی ان کی نگرانی جاری ہے ۔فی الحال یہ چیتے کوارنٹائن ہیں اور ایک مہینہ پورا ہونے کے بعد انہیں جنگل میں چھوڑا جائے گا ۔ لیکن اس کے بعد مدھیہ پر دیش کے جنگلاتی عملے اور کونو نیشنل پارک کے حکام کے سامنے کئی چنوتیاں کھڑی ہو جائیں گی ۔ ریاستی حکومت کے چیف جنگل محافظ اور چیف ورلڈ لائف وارڈن جسبیر کہتے ہیں کہ چنوتی اس وقت شروع ہوگی جب ان کا سامنا دوسرے پرندوں چرندوں اور جانوروںسے ہوگا ۔وہ کہتے ہیںکہ ویسے ان کے آنے سے پہلے ہی بہت سارے انتظام ان کے سی سی ٹی وی کیمرے جنگل کے بڑے حصے میںلگا ئے گئے ہیں اور کنٹرولر روم بھی بنا یا گیا ہے یہاں ان پر دن رات نظر رکھی جاتی ہے جب یہ جنگل میں چھوڑ دئے جائیںگے اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے توجہ ہٹ جائے گی۔ ہر چیتے کی گردن میں کالر لگا ہوا ہے جس سے اس کے ہر پہلو کی نگرانی ہوگی ۔وہیں کچھ جنگلاتی ماہرین کو لگتا ہے کہ کہیں چیتے چھلانگ لگاکر پارک کے آس پاس بسے دیہات میں نہ گھس جائیں ؟ یہ چنوتی اس لئے بڑی ہے کیوںکہ یہ افریقی چیتے ہیں یہ دوسرے ایشائی چیتوں سے تھوڑ ے الگ ہیں ۔ کونو میں تیندو¿ں کی تعدا د بھی کافی زیادہ اور یہاں لکڑ بگھے بھی کافی تعدا دمیں ہیں جو ان چیتوں سے زیادہ طاقتور ہیں اور ان پر حملہ بھی کر دیتے ہیں اس لئے انہیں جنگلی کتوں کے حملوں سے بھی بچانا ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح ان کیلئے قدرتی رہائش تیار کی گئی ہے تاکہ انہیں پریشانی نہ ہو ایک دوسرے جنگلاتی ماہر تھاپر کا کہنا ہے کہ ان چیتوں کو جنگل کے آس پاس بہت سارے دشمن ملیں گے ان کے لئے شکار بہت کم ملے گا۔ دوسرا اہم پہلویہ ہے کہ گراس لینڈ کی کمی وہ افریقہ کی مثال دیتے ہیں کہ وہ چیتوں کی تندرستی اس لئے ہے کہ ان کے دوڑنے کیلئے کافی لمبی چوڑی جگہ ہے یہاں ویسا نہیں ہے ۔جنگلی جانوروں کے ڈاکٹر کارتی کین کا اندیشہ ہے کہ افریقہ سے آئے نئے ماحول میں چیتو ںکے درمیان انفیکشن ہو سکتا ہے ۔دیگر طرح کے وائرس کا بھی اندیشہ زیادہ ہوگا ۔ چیتے چوٹ یاوائر س انفیکشن برداشت نہیں کر سکتے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!