وزیراعلیٰ کو شکریہ کہنا ، میں زندہ لوٹ پایا!

بھٹنڈہ -پنجاب میں وزیراعظم نریند ر مودی کا قافلہ میں سیکورٹی نے بڑی چوک ہونے کے سبب 20منٹ تک کچھ لوگ مظاہرہ اور کسانوں کے جام میں پھنسا رہا ۔قافلہ کو بیچ میں روک کر بھٹنڈہ ایئر پورٹ لوٹنا پڑا، وہاں پہونچنے پر وزیراعظم نے افسران سے کہا ،کہ اپنے سی ایم کو شکریہ کہنا کہ میں زندہ لوٹ پایا ہوں ۔وزارت داخلہ نے اسے بڑی وسنگین چوک بتاتے ہوئے پنجاب سرکار سے رپورٹ مانگی وزیراعظم نریندر مودی کی سیکورٹی میں ہوئی چوک سے پورا دیش حیران رہ گیا ۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھا اپنے ہی دیش میں وزیراعظم کے ساتھ ایسا ناگزیں واقعہ رو نما ہو سکتا ہے کہ ان کے قافلے کو کسی فلائی اوور پر بیس منٹ کے لئے رکنا پڑے ۔اگر یہ کسی طرح کی قتل کرنے کی کوشش تھی تو اس کی سبھی کو تشویش ہونی چاہیے ۔میں کسی ایک واقعہ کے جواب میں دوسرے وواقعہ کو یاد کرکے جواب دینے کاحمایتی نہیں ہوں مگر جمہوریت میں جب احتجاج کو جب سازش اورخطرہ کہا جانے لگے تو کچھ باتیں تاریخ کے اوراق سے نکالناچاہیے ۔بات 26اپریل 2009کی ہے جب دیش کے اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ گجرات کے احمد آباد میں تھے جہاں ا ن پر جوتا پھینکا گیا تھا یہ بھی پی ایم کی سیکورٹی میں چوک تھی کہنے کے لئے ہم کہہ سکتے ہیں جوتے کی جگہ بم بھی ہو سکتا تھا چونکہ چھ ماہ پہلے ہی بھارت پرایک بڑا آتنکی حملہ ہواتھا۔اور جس طرح سے حالات میں دھرم سنسد میں ایک دھارمک نیتا نے کہا کہ اگر میں ایم پی ہوتاتو اور میرے پاس بندوق ہوتی تومیں ڈاکٹرمنموہن سنگھ کوگولی ماردیتا تواس سے صاف ہوتا ہے کہ وزیراعظم منموہن سنگھ کے دشمن کم نہیں تھے ۔جوتا پھیکنے کے واقعہ کے بعد پی ایم منموہن سنگھ نے نا تو گجرات کی مودی سرکار پر الزام لگایااور یہی کہا کہ میں شکریہ کہنا چاہتا ہوں کہ سی ایم کو میں زندہ بچ گیا ۔کیوں کہ وہ اوچھی اور بدنیتی کی سیاست میں یقین نہیںکرتے سب سے اچھی بات یہ تھی کہ منموہن سنگھ نے اس لڑکے کو معاف کرتے ہوئے کہا اس نوجوان پر کسی طرح کا کیس درج نہ کیا جائے ۔یہ دورہ ہے اور جمہوریت میں نڈراورمضبوط وزیراعظم کی بات سے یاد آیا کہ فروری 1967 کے چناو¿ کی بات ہے تب کی وزیراعظم اندرا گاندھی دیش بھر میں چناو¿ کمپین کررہی تھی ۔وہ دیش کی دور دراز حصوں میں جا رہی تھیں ۔لاکھوں کی بھیڑ اور خود بخودان کی تقریر سننے کے لئے اکٹھا ہوا کرتی تھیں ایسے ہی کمپین کے سلسلے میں جب وہ اڑیشہ کی راجدھانی بھونیشور گئی تھیں وہاں بھیڑ میں سے کچھ شرپسندی تھے وہ جذبات پر بول رہی تھیں کہ شرپسندوں نے پتھراو¿ شروع کر دیا ۔لیکن اندرا گاندھی بھی ڈٹی رہیں اور اسی پتھراو¿ کے درمیان ایک پتھر کا ٹکڑا ان کی ناک پر آلگا اور ناک سے خون بہنے لگا سیکورٹی جوان انہیں اسٹیج سے ہٹا لینا چاہتے تھے ،مقامی کانگریس ورکر بھی یہی درخواست کرنے لگے کہ وہ اسٹیج کے پچھلے حصہ میں جاکر بیٹھ جائیں ،مگراندرا جی نے کسی کی نہیں سنی اور خون سے لت پت ناک کو رومال سے دبایا اور نڈر ہو کر آگ بگولہ بھیڑ کے سامنے کھڑی رہیں اور اپنی تقریر پوری کی ۔اپنے اسٹاف اور کانگریسی ورکروں سے کہا کہ وزیراعظم ہونے کے ناطہ میں دیش کی نمائندگی کرتی ہوں میرا بھاگنا دیش اور دنیا میں غلط سندیش پہونچائے گا اس کے بعد اپنی تقریر پوری کرنے کے بعد وہ اگلے اسمبلی حلقہ کے لئے کولکاتہ روانہ ہو گئیں ۔اوراسی زخمی ناک پر پٹی دبا کر کولکاتہ میں تقریر کی ۔لیکن انہوں نے یہ کہیں نہیں کہا کہ جان بچ گئی اور زندہ لوٹ آئی ہوں ۔پی ایم مودی کے واقعہ باریکی سے جانچ ہونی چاہیے اور قصورواروں کی لاپرواہی اور جوابدہی ہونی چاہیے ۔اس طرح کی لاپرواہی اور چوک کی گہری جانچ ہونی چاہیے تاکہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ نہ ہو ۔وزیراعظم کا اس طرح بیس منٹ تک سڑک پر پھنسے رہنا ایس پی جی کے رول پر شبہہ کی انگلی کھڑا کرتا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!