غلام دور کا یہ ملک بغاوت قانون ختم ہونا چاہئے!

سپریم کورٹ نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ حکومت پر سوال اٹھاناملک سے بغاوت نہیں ہوتا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ملک بغاوت کی سنگین شقوں کے تحت قانونی چارہ جوئی کا رجحان غلط ہے اور اس پر روک لگنی چاہئے۔ اس معاملے میں ہر صحافی کو تحفظ حاصل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومتیں اس کو سمجھتی ہیں یا نہیں۔ معزز سپریم کورٹ نے صحافی ونود دعا کے یوٹیوب پروگرام پر شملہ میں جمعرات کو درج بغاوت کے مقدمے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1962 کا فیصلہ ہر صحافی کو تحفظ کا حق دیتا ہے۔ ایک بار پھر سپریم کورٹ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ شہری کو حکومت اور اس کے عہدیداروں کے اقدامات یاطریقوں پر تنقید کرنے یا اس پر تبصرہ کرنے کا پورا حق ہے۔ یہ حق اس وقت تک ہے جب وہ لوگوں کو حکومت کے خلاف تشدد کا ارتکاب کرنے یابدنظمی پھیلانے کے ارادے سے نہیں اکساتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بڑی عدالت نے ہماچل میں سینئر صحافی ونود دعا کے خلاف درج بغاوت کا مقدمہ منسوخ کردیا۔ عدالت نے کہا کہ تمام صحافی ،بڑی عدالت کے ذریعے کیدرناتھ سنگھ کیس میں سال 1962 میں عدالت عظمی کے ذریعہ دیئے گئے فیصلے کے تحت محفوظ ہیں۔ تب بغاوت قانون کا دائرہ طے کیا گیا تھا۔ دعا پر گذشتہ سال لوک ڈاﺅن میں تارکین وطن مزدوروں کی ہجرت کے بارے میں اپنے یوٹیوب پروگرام میں حکومت پر تنقید کرنے پر ملک بغاوت کا مقدمہ درج ہوا تھا۔ جسٹس یو یو للت اور ونیت شرن کی بنچ نے کہاکہ جب الفاظ یا اظہار رائے میں عوامی بدنظمی یا قانون و نظام امن و امان کو خراب کرنے کا خطرناک نظام یا نیت ہو تی ہے تو پھر صرف ہندوستانی تعزیرات ہند کی دفعہ -124 اے کے تحت ایک مقدمہ بنتا ہے ۔ بنچ نے کہا کہ دعا کے بیانات کو بہترین طور پر حکومت اور اس کے حکام کے اقدامات کو ناگوار ہونے کا اظہار کہا جاسکتا ہے ، تاکہ انھیں موجودہ صورتحال سے جلد اور موثر انداز میں نمٹنے کے لئے اشارہ کیا جاسکے۔ اپنے حکم میں ، بنچ نے کہا کہ ونود دعا کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانا ناانصافی ہوگی۔ بنچ نے کہا کہ دعا کے خلاف کوئی جرم نہیں بنتا۔ ایسے میں مقدمہ چلانا بولنے و اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی ہوگی۔ جمعہ کے روز ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے ونود دعا کے خلاف بغاوت کیس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ اور سخت اور فرسودہ بغاوت کے قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایک بیان میں ، گلڈ نے آزاد میڈیا اور ہماری جمہوریت پر بغاوت کے قوانین کے سخت اثرات پر سپریم کورٹ کے خدشات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ گلڈ ان سخت پرانے قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے جن کا کسی بھی جدید جمہوریت میں کوئی مقام نہیں ہے۔ گلڈ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے دعا کے خلاف نہ صرف فوجداری شکایت کو ختم کیا بلکہ صحافیوں کو ملک بغاوت کے معاملوںسے صحافیوں کی حفاظت کر نے کی کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے صحافیوں پر لٹکتی تلوار سے نجات مل جائے گی۔ یہ توقع کی جاتی ہے کہ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار عدالتوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ حکومت پر تنقید کرنا ، وزیر اعظم یا وزیروں یا ان کے عہدیداروں پر منفی تبصرے کرنا بغاوت کا باعث نہیں ہے۔ حکومت اس دفعہ کو مسلط کرکے بار بار صحافیوں کو ہراساں کرتی ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ حکومتیں یہ سمجھتی ہیں یا نہیں؟ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!