نوجوانوں کی موت کا اوزار ہے نشیلی چیزیں!

سپریم کورٹ نے منگل کے روز کہا کہ نشیلی چیزوں کا کاروبار کرنے والے لوگ ایسے بے قصور نوجوانوں کے لئے موت کا ذریعہ ہیں اور وہ سماج پر خطرناک اثر ڈالتے ہیں عدالت نے کہا کہ دیش میں نشیلی چیزوں کی اسمگلنگ اور اس کے ناجائز کاروبار سے جنتا کے ایک بڑے حصہ خاص طور پر لڑکے لڑکیوں میں نشہ کی لت لگ جاتی ہے عدالت کا کہنا تھا کہ مسئلے نے سنگین اورخطرناک شکل اختیار کرلی ہے جسٹس ڈی وائی چندر چور اور جسٹس ایم آر شاہ کی بنچ نے پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ کے نومبر 2020 کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل کو مسترد کرتے ہوئے یہ رائے زنی کی ۔عدالت نے نچلی عدالت کے اس فیصلے کو بھی برقرار رکھا تھا جس میں ایک کلو گرام حشیش برآمد ہونے پر ایک شخص کو نشیلی چیزیں متعلق قانون کے تحت قصوروار مانتے ہوئے 15 سال کی قید اور دو لاکھ روپے جرمانہ کیا تھا ۔عدالت نے کہا ملزم کی طرف سے دی گئی دلیلوں کو ان پر غور کرتے وقت یہ دھیان میں رکھا جانا چاہیے کہ وہ شخص کسی معاملے میں یا ملزم ایک یا دو لوگوں کو مارتا ہے جبکہ نشیلی چیزوں کا کاروبار کرنے والے بہت سے معصوم لڑکوں کی موت کا ذریعہ بنتے ہیں اس کا سماج پر خطرناک اثر پڑتا ہے وہ سماج کے لئے خطرہ ہیں یہ تلخ حقیقت ہے کہ دیش میں نشیلی چیزوں کی اسمگلنگ دن بدن بڑھتی جارہے اور آئے دن کوئی نہ کوئی اسمگلر پکڑا جاتا ہے لیکن ابھی تک اس کو روکنے کی کوئی ٹھوس پالیسی نہیں بن پائی ہے دیش کی نوجوان پیڑی اس لعنت سے متاثر ہو رہی ہے اسے روکنا ضروری ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!