سب سے بڑا پینچ ایم ایس پی قانونی گارنٹی کا ہے !

تین نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کے لئے جاری کسان تحریک میں بڑا پینچ کم از کم ایم ایس پی کی قانونی گارنٹی کو لیکر بنا ہوا ہے ۔ اس کے سوال پر احتجاجی کسان انجمنیں ہی نہیں بلکہ فیڈریشن کے دیگر انجمنیں بھی سرکار کے خلاف ہیں حالانکہ اس مانگ سے وابستہ پیچیدگیوں کے سبب سرکار پوری طرح شش و پنج میں مبتلا ہے سرکار کے ذرائع کے کہنا ہے کہ اگر ایم ایچ پی کی قانونی گارنٹی کا اعلان کردیا جائے تو تینوں قوانین کو ختم کرنے کی مانگ سے متعلق اٹھ رہی آوازیں دھیمی پڑ سکتی ہیں کیونکہ سرکار پہلے سے ہی ان قوانین کے کئی تقاضوں میں ترمیم کے لئے تیار ہے مثلاً سرکار کسانوں کو سیدھے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے ،این ایس آر سیکٹر سے وابستہ نئے آلودگی قانون میں تبدیلی کرنے، پرائیویٹ خریداروں کے لئے رجسٹریشن ضروری نہ کرنے اور چھوٹے کسانوں کی مفادات کی حفاظت کے تقاضوں میں ضروری تبدیلی کے لئے تیار ہے۔ مشکل یہ بھی رہی ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی سرکاریں کسان اور گراہکوں کے درمیان سیدھے تعلق قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں اس کے سبب گرہکوں کو بھی زیادہ قیمت چکانی پڑی لیکن اس کا معمولی حصہ ہی کسانوں کی جیب تک پہونچا زرعی سیکٹر کا منافع دلالوں کی بھینٹ چڑھتا رہا ۔آزادی کے سات دھائی سے زیادہ وقت گزر جانے باوجود سرکاریں کسانوں کی آمدنی بڑھانے میں ناکام رہی ہیں ۔ اور کئی بھی ایسے اشو ہیں جس میں ابھی بھی الجھن کی صورت حال بنی ہوئی ہے۔ سرکار کا مقصد زرعی سیکٹر میں پرائیویٹ ساجھیداری بڑھانے کی ہے ایم ایس پی کو سرکار قانونی شکل تو دے گی پرائیویٹ سیکٹر میں بھی ساجھیداری بڑھانے کی ہے ۔ایم ایس کو پی سرکار قانونی تو بنا دے گی ،مگر پرائیویٹ سیکٹر کو خریداری کے مجبور نہیں کر پائے ایسے میں اگر خریداری کم ہوئی تو پرائیویٹ سیکٹر خریداری کریں گے یا نہیں ؟ سرکار اوسطا ًکل پیداوار کا چھ فیصدی ہی خرید کرتی ہے موجودہ صلاحیت کے مطابق اسے دس فیصدی تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ کسی ایک فصل کی زیادہ پیداوار ہونے کے بعد اس کی مانگ میں کمی آئے گی سرکار ایک حد سے زیادہ فصل نہیں خریدے گی اور اس کے بعد ایم ایس پی سے کم قیمت خرید پر غیر قانونی ہونے پر پرائیویٹ سیکٹر خریدارے معاملے سے نہیں جڑے گیں ۔ ایسے میں کسان فصلوں کا کیاکرےگا؟ ایم ایس پی کے دائرے میں آنے والی فصلوں کی الگ الگ کوالٹی ہوتی ہے ۔کوالٹی کے حساب سے ایک فصل کا الگ الگ پیمانہ طے کرتے ہوئے الگ ایم ایس پی طے کرنی ہوگی ۔ معیارات پر کھرا نہ اترنے والی فصلوں کا کیا ہوگا سرکار کے زرائع اسے بے حد پیچیدہ کاروائی مانتے ہیں سرکار کا کہنا ہے تینوں قوانین کے ذریعے اس کی کوشش زرعی سیکٹر میں مقابلہ کرنے کی تھی ،پرائیویٹ سیکٹر اپنی سوجھ بوجھ اپنی فصلوں کی کھیتی کر پائیں گے جن کی مستقبل میں مانگ زیادہ ہونے کا امکان بنا رہے گا اگر ایم ایس پی کو قانونی بنانے سے نئے زرعی قوانین کا مقصد پورا نہیں ہوگا سرکار مقابلے کےلئے پرائیویٹ سیکٹر پر شرطیں نہیں تھوپنا چاہتی ۔ سرکار کے زرائع کا کہنا ہے ویسے بھی زرعی سیکٹر پرائیویٹ سیکٹر کے لئے کشش کی ترجیحاتی والا سیکٹر نہیں ہے مسئلہ پیچیدہ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!