جان لیو ا ٹی وی ڈبیٹ!
پچھلے کچھ برسوں سے نیوز چینلوں پر چل رہی بڑی بحثوں میں جس طرح کی گھٹیا ڈبیٹ ہوتی ہے اس کی ایک مثال ہمیں 12اگست کو انتہا پر دکھائی دی یہ زہریلا پن کس قدر نقصان پہونچاتا ہے ،دماغ اور صحت پر اس کا اثر ہوتا ہے اس کی بھی خوب باتیں ہوتی رہتی ہیں ۔زیادہ تر ان ٹی وی ڈبیٹس میں ڈبیٹ کے نام پر تماشہ ہوتا ہے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں ہوتی ہیں اور چیخ اور چلاہٹ ہوتی ہے اور مقرر اپنی حدود بھول جاتے ہیں اور ذاتی حملوں پر اتر آتے ہیں ایسا ہی کچھ بدھوار کو کانگریس نیتا اور پارٹی کے ترجمان راجیو تیاگی کے ساتھ ایک پرائیویٹ چینل کی ڈبیٹ میں ہوا بھاجپا کے ترجمان نے ان پر ذاتی حملے کئے اور ساری حدیں پار کر دیں ۔بحث کے دوران راجیو تیاگی کو جے چند کہہ دیا گیا انہیں فرضی ہندو کہا گیا ان کے دھرم پر سوال اٹھائے گئے ڈبیٹ کی ویڈیو دیکھنے پر صاف لگتا ہے کہ راجیو تیاگی ان الزامات سے بہت پریشان ہو گئے تھے اور وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ کیوں ان پر اس طرح کے الزامات لگائے جارہے ہیں ۔بھاجپا ترجمان حالانکہ خود بھی ڈاکٹر ہیں کو اتنا سمجھ نہیں آیا کہ راجیو تیاگی کی حالت بگڑ رہی ہے ۔انہیں چپ ہو جانا چاہیے تھا لیکن وہ لگاتار ان پر ذاتی حملے کرتے رہے راجیو پر ان کی باتوںکا اتنا برا اثر پڑا کہ انہیں وہیں دل کا دورہ پڑ گیا ۔چینل والوں انہیں اسپتال بھیجا جہاں ان کو مرا ہوا قرار دے دیا ۔جو ہوا اس کے لئے کون ذمہ دار ہے ؟اس موت پر سوال اٹھائے جارہے ہیں اور یہ بھی پوچھا جارہا ہے کہ نیوز چینلوں کے اینکروں اور مدیروں تک کو ۔پھر سے جنرلزم کی بنیادی تعلیم کی ضرورت ہے ؟دراصل 90کی دہائی کے دوران بھارت میں جب پرائیویٹ چینلوں کے لئے دروازے کھلے تو بڑی تعداد میں ان کے رجسٹریشن کا سیلاب آگیا لیکن اس کے مواد کو خود کنٹرول کرنے کے لئے سرکار نے جو سسٹم بنایا وہ دو برس 2011میں ہی لاگو ہو پایاجب انڈین بروڈ کاسٹنگ فیڈریشن نے بروڈ کاسٹنگ مواد مشاورتی کونسل بنائی اسے پریس کونسل آف انڈیا کے ترز پر بنایا گیا تھا لیکن یہ ادارہ کچھ نہیں کرتا ٹی وی پر ہونے والی مباحثوں کا معیار اتنا گرتا جا رہا ہے کانگریس ترجمان جے ویر شیرگل نے وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاوڈیکر کو خط بھیج کر میڈیا اداروں کے لئے ایڈوائزری جاری کرنے کو کہا ہے تاکہ کوئی ضابطہ رول نافذ ہو جائے جس سے سنسنسی خیز منفی اور ذاتی اور زہریلی ٹی وی بحث کو کنٹرول کیا جا سکے انہوں نے کہا کہ کوڈ آف کنڈکٹ یقینی کیا جانا چاہیے تاکہ کوئی اینکر لکشمن ریکھا کو نا پار کر سکے سماج کا بہت بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جسے ،لگتا ہے کہ چینلوں پر ہونے والی بحثوں میں مسلسل گراوٹ دیکھی جارہی ہے چیخ چلاہٹ گالی گلوج عام بات ہو گئی ہے کچھ ٹی وی چینل تو جان بوجھ کر ایسے مقررین کو بلاتے ہیں جو تلخ آوازوں کے ذریعے بے ہودہ باتیں صرف اس لئے کرتے ہیں تاکہ ٹی وی ناظرین کو کھینچ سکیں ٹی وی پروڈوسر اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے چکر میں رہتا ہے ۔مجھے راجیو تیاگی کے دنیا سے جانے کا صدمہ ہے ۔ایک دوبار ٹی وی بحث میں میرے ساتھ بھی تھے وہ ایک نرم گو شخص تھے جو زوردار طریقے اور مہذب انداز میں اپنی بات رکھتے تھے انہیں ہم اپنی شردھانجلی دیتے ہیں ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں